Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’حکومت کی ویکسین پالیسی مبہم، قیمت کی چھوٹ غیر اخلاقی‘

ڈریپ کے ترجمان کے مطابق پاکستان میں ویکسین کسی سٹور پر دستیاب نہیں ہوگی بلکہ اسے طے شدہ سنٹرز پر ہی لگایا جائے گا۔ فوٹو: اے ایف پی
وزیراعظم عمران خان کے سابق معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے حکومت کی کورونا ویکسین پالیسی کو مبہم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کو ویکسین من مانی قیمت پر فراہم کرنے کی چھوٹ دینے سے امیر اور غریب میں تفریق مزید بڑھ جائے گی۔
اردو نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو میں ماضی میں موجودہ حکومت کا حصہ رہنے والے ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا تھا کہ کورونا کی ایمرجنسی کی صورتحال میں حکومت کی پالیسی مبہم ہے اور ان لوگوں کو ویکسین نہیں لگ رہی جن کو لگنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے پرائیویٹ سیکٹر کو ویکسین کی درآمد کی اجازت دینا اور پھر قیمت پر کنٹرول نہ رکھنا اخلاقی طور پر غلط ہے۔
’میرا موقف ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر وبا پھیلی ہوئی ہے اور جن لوگوں کو ترجیحی بنیادوں پر ویکیسن لگنی چاہیے ان کو تو لگ نہیں رہی جبکہ پرائیویٹ سیکٹر کے ذریعے صرف ان لوگوں کو لگے گی جو خرید سکتے ہیں تو یہ سماجی ناانصافی ہوگی۔‘
یاد رہے کہ ڈرگز ایکٹ 1976 کے تحت پاکستان میں ادویات کی قیمتوں کا تعین ڈریپ کی مشاورت سے وفاقی حکومت کرتی ہے تاہم دو فروری کو وفاقی حکومت نے ایک خصوصی حکم نامے (ایس آر او ) کے تحت چھ ماہ کے لیے کورونا ویکسین کو اس قانون سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ گویا اب ویکیسن درآمد کرنے والی کمپنیوں پر منحصر ہے کہ وہ اس کی کیا قیمت مقرر کرتی ہیں
پاکستان میں حکومت متعدد کمپنیوں کو ویکسین کی درآمد کی اجازت دے چکی ہے ان میں روسی، برطانوی اور چینی ویکسین درآمد کرنے والی کمپنیاں شامل ہیں۔
یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان ڈاکٹر ظفر مرزا کو کورونا وبا سے نمٹنے کے لیے کوششوں پر متعدد بار سراہ چکے ہیں۔
 ڈاکٹر ظفر مرزا نے اردو نیوز کو بتایا کہ معاشرے میں پہلے ہی سماجی ناانصافی ہے اور تازہ حکومتی فیصلے سے امیر اور غریب میں تفریق مزید بھی بڑھ جائے گی۔

ڈریپ کی جانب سے روس کی سپوتنک فائیو، چین کی سائنو فارم اور برطانیہ کی ایسٹرا زینکا کی پاکستان میں درآمد کی منظوری دی گئی۔ فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’فرض کیا ایک 60 سال کے شہری کو ویکیسن نہیں لگی اور اس کا امیر ہمسایہ کم عمر ہو کر بھی ویکسین لگوا لے گا تو غریب اور امیر کے درمیان ناانصافی کا ماحول بنے گا۔‘
اس سوال پر کہ کیا حکومت اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اس حوالے سے کچھ اور کر سکتی تھی تو ان کا کہنا تھا کہ ڈریپ کو اگر خطے میں کسی اور طرح ویکیسن کی مارکیٹ قیمت کا پتا نہیں لگ رہا تھا تو اسے چاہیے تھا کہ ویکیسن بنانے والی کمپنی سے اس کی لاگت کا پتا کرے یا پھر حکومتی کمیٹی اس کا تعین کر دیتی تاہم قیمت کا تعین نہ کرنا ایک غلط فیصلہ تھا۔
اس سوال پر کہ کیا حکومت نے ویکسین پاکستان میں لانے میں تاخیر کی ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں ایسا نہیں بلکہ دیگر ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں حکومت نے جلدی ویکیسن لانے کی کوششیں کیں اور حکومتی سطح پر مارچ میں عام لوگوں کو ویکسین لگانے کا عمل بھی شروع ہو جائے گا۔

ویکسین کی قیمتوں پر حکومتی موقف

قیمتوں کے تعین سے استثنیٰ کے حوالے سے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر ڈریپ کے ترجمان اختر عباس سے نے بتایا کہ قیمتوں کا تعین وفاقی حکومت کرتی ہے اور اس حوالے سے جاری ایس آر او خو د ہی وضاحت کے لیے کافی ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم کے مطابق ویکسین کے موثر ہونے کو جانچنے کا واحد طریقہ اینٹی باڈیز ٹیسٹ ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

حکومت کے ایس آر او کے مطابق  اسے قیمتوں کے تعین کے حوالے سے ڈرگز ایکٹ کے تحت استثنیٰ دینے کا اختیار حاصل ہے۔ ویکسین صرف ہسپتالوں اور اداروں میں دی جائے گی اور اس کے طے شدہ سنٹرز ہوں گے۔ یہ عام مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوگی اور قیمتوں کے حوالے سے استثنیٰ اس وقت ختم ہو جائے گا جب مارکیٹ میں اس کی قیمت واضح ہو جائے گی۔
ڈریپ کے ایک عہدیدار کے مطابق کسی دوا کی قیمت کا تعین خطے میں موجود اسی طرح کی ادویات کی قیمت کو دیکھ کر کیا جاتا ہے مگر چونکہ کورونا ویکسین کمرشل سطح پر کہیں دستیاب نہیں تو اس کی قیمت کے حوالے سے کوئی علاقائی مثال یا ریفرنس پرائس موجود نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ جان بچانے والی دوا بڑی مشکل سے مل رہی ہے اگر حکومت قیمت کے حوالے سے سختی کرے گی تو غیر ملکی کمپنیاں ویکیسن پاکستان میں کیوں بھیجیں گی۔ ’ہمارے پاس دو آپشن ہیں یا تو لوگوں کی جان بچا لیں یا پھر قیمت کی فکر کر لیں‘۔

کیا آپ کی ویکسین موثر ہے؟ کیسے معلوم کریں؟

یہ کیسے تعین کیا جائے کہ پرائیویٹ سیکٹر سے خریدی گئی ویکسین نے اپنا کام شروع کر دیا ہے؟ اس حوالے سے اردو نیوز کے رابطہ کرنے یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم نے بتایا کہ ویکسین کو ٹیسٹ کرنے کا واحد طریقہ اینٹی باڈیز ٹیسٹ ہے جو ویکسین لگوانے والے افراد کروا سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ٹیسٹ عموما لیبارٹریز اور ہسپتالوں میں دستیاب ہوتے ہیں۔ تاہم آج کل زیادہ تر لیبارٹریز میں اس ٹیسٹ کے لیے مریض کے پاس ڈاکٹرز کی طرف سے تجویز کردہ نسخہ ہونا ضروری ہے۔

ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا ہے کہ کورونا کی ایمرجنسی کی صورتحال میں حکومت کی پالیسی مبہم ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اس حوالے سے گزشتہ چند دنوں سے شوکت خانم ہسپتال کی طرف سے صارفین کو میسج بھی کیے جا رہے ہیں کہ ویکیسن لگوانے کے بعد کورونا کے خلاف اپنی قوت مدافعت چیک کرنے کے لیے ٹیسٹ شوکت خانم کی لیبارٹریز پر کروائے جا سکتے ہیں۔
ڈریپ کے ترجمان کے مطابق پاکستان میں بیچی جانے والی ویکسین کسی سٹور پر دستیاب نہیں ہوگی بلکہ اسے طے شدہ سنٹرز پر ہی لگایا جائے گا۔ اس حوالے سے معیار چیک کرنے کے لیے ڈریپ کا مکمل نظام موجود ہے اس کا عملہ بھی چیکنگ کرتا ہے اور اگر کسی صارف کو کسی ویکیسن یا دوا کے معیار پر شک ہو تو وہ ڈریپ کی ایپلی کیشن (MedSafety) پر جا کر اپنی شکایت درج کر سکتا ہے جس کے بعد کارروائی کی جاتی ہے۔

صرف ایک کمپنی کو ایک برانڈ کی ویکیسین کی درآمد کی اجازت کیوں؟

ڈریپ کی جانب سے اس وقت روس کی سپوتنک فائیو ویکسین، چین کی سائنو فارم اور برطانیہ کی ایسٹرا زینکا کی پاکستان میں درآمد کی منظوری دی گئی ہے جبکہ چین کی کین سائنو بائیو کو بھی اجازت آخری مراحل میں ہے۔  
اس حوالے سے سندھ میڈیکل سٹور، علی گوہر فارما اور قومی ادارہ صحت کو مقامی سطح پر ڈسٹری بیوشن کی اجازت دی گئی ہے۔

پاکستان میں صحت کے شعبے سے منسلک ورکرز کو پہلے مرحلے میں ویکسین لگائی گئی۔ فوٹو: اے ایف پی

اس سوال پر کہ کیا صرف ایک طرح کی ویکیسن ایک ہی کمپنی کو درآمد کرنے کی اجازت دے کر ان کی اجارہ داری کا راستہ نہیں کھولا گیا ڈریپ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ ایک انٹرنیشنل روایت ہے کہ ایک طرح کی دوا ایک ہی کمپنی کے پاس ہوتی ہے۔
’اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ اگر کسی مرحلے پر کسی دوا کے حوالے سے کوالٹی کی شکایت پیدا ہو تو وہ کسی دوسری کمپنی کو مورد الزام نہ ٹھہرا سکے۔‘ 
ایک اور سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’ڈریپ یہ تعین نہیں کرتا کہ کون سی ویکسین کا ڈسٹری بیوٹر کون ہوگا بلکہ جو کمپنی غیر ملکی دوا ساز کمپنی سے ڈسٹری بیوشن کا سرٹیفیکیٹ لے آئے اس کی اہلیت کا جائزہ لے کر اسے اجازت دی جاتی ہے۔ صرف یہ جانا جاتا ہے کہ کمپنی کے پاس ویکیسن یا دوا کو محفوظ رکھنے، مناسب ٹمپریچر پر رکھنے اور ملک بھر میں پہنچانے کا انتظام موجود ہے یا نہیں۔‘

شیئر: