Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’علی سدپارہ بلندی پر رہنا چاہتے تھے،اب کے ٹو کی آغوش میں چلے گئے‘

دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو سر کرنے کی مہم جوئی میں لاپتا ہونے والے کوہ پیما محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے ان کی موت کی تصدیق کر دی ہے۔
جمعرات کو گلگت بلتستان کے وزیر سیاحت راجا ناصر علی خان کے ہمراہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے ساجد سپارہ نے کہا کہ ’انہیں یقین ہے کہ علی سدپارہ اور دیگر دو غیر ملکی کوہ پیماؤں کو کے ٹو سر کرنے کے بعد واپسی پر حادثہ پیش آیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’علی سدپارہ اور ساتھی کوہ پیماؤں کے ساتھ جس بلندی پر حادثہ پیش آیا وہاں چند گھنٹوں سے زیادہ زندہ رہنا ممکن نہیں تھا  تاہم ساجد سدپارہ کی طرف سے یہ نہیں بتایا گیا کہ محمد علی سدپارہ کی لاش مل گئی ہے یا نہیں؟
 ساجد سدپارہ کے مطابق ’اس دوران میرا خاندان، پوری پاکستانی قوم اور ہمارے کوہ پیما دوست مسلسل صدمے اور تکلیف کے مرحلے سے گزرے۔‘
انہوں نے اپنے والد کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کے انتہائی شفیق باپ خاندان سے بچھڑ گئے ہیں جبکہ دنیا ایک بہادر اور باصلاحیت مہم جو سے بھی محروم ہو گئی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’علی سدپارہ گلگت بلتستان کے نوجوانوں کے لیے عالمی معیار کا ایک کلائمبنگ سکول تعمیر کرنا چاہتے تھے۔‘
ساجد سدپارہ کا کہنا تھا کہ ’وہ اپنے والد کے مشن کو جاری رکھیں گے اور ان کے ادھورے خواب کو پورا کریں گے۔‘
یاد رہے کہ  سکردو سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما محمد علی سدپارہ موسم سرما میں کے ٹو سر کرنے کی مہم میں شریک تھے اور کے ہمراہ تین غیرملکی کوہ پیما بھی تھے۔
محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ بھی اس مہم میں ان کے ساتھ تھے تاہم پانچ فروری کو ان کے آکسیجن سلنڈر میں کوئی مسئلہ پیدا ہو گیا تھا جس کے باعث وہ واپس بیس کیمپ میں لوٹ آئے تھے جبکہ ان کے والد اور تین غیرملکی کوہ پیماؤں نے سفر جاری رکھا تھا۔
کے ٹو بیس کیمپ کے مطابق محمد علی سدپارہ، جان سنوری اور ژاں پابلو موہر کے ساتھ آخری رابطہ پانچ فروری کو ہوا تھا۔
جان سنوری کا تعلق آئس لینڈ سے ہے جبکہ جے پی موپر کا تعلق چلی سے ہے۔ یہ دونوں کوہ پیما عالمی سطح پر شہرت رکھنے والے کوہ پیما تھے۔
الپائن کلب کے مطابق علی سدپارہ نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان سیاچن پر ہونے والے تصادم کے دوران بھی پاکستانی فوج کے لیے بطور پورٹر خدمات سر انجام دی تھیں۔
علی سدپار نے 2016 میں موسم سرما میں پہلی بار نانگا پربت سر کرنے کا اعزاز اپنے نام کیا تھا۔ 2015 میں علی سدپارہ اور ان کی ٹیم نے موسم سرما میں نانگا پربت کی چوٹی سر کرنے کی مہم کا آغاز کیا تھا لیکن وہ ناکام رہے تاہم 2016 میں وہ یہ اعزاز اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوئے۔
علی سدپارہ نے نانگا پربت چوٹی چار بار سر کی جب کہ 2018 میں انہوں نے کے ٹو سر کرنے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔
2018 میں علی سدپارہ نے ہسپانوی کوہ پیما الیکس ٹیکسون کے ہمراہ موسم سرما میں دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ بغیر آکسیجن کے سر کرنے کی مہم کا آغاز کیا لیکن وہ ناکام رہے تھے۔

شیئر: