Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شوق کوہ پیمائی ہے مگر سانس کون سنبھالے؟

بلندی پر آکسیجن کی کمی کے مسائل تفریح غارت کر دیتے ہیں (فوٹ: پکسابے)
لمبے انتظار، بہت ساری ایکسائٹمنٹ اور اچھا وقت گزارنے کی خواہش کے ساتھ سفر شروع کیا اور سرسبز و شاداب، بلند علاقوں میں پہنچتے ہی طبیعت نے سارا مزا کرکرا کر دیا۔  مجبورا پروگرام ترک کرنا پڑا، یا باقی تو گھومتے پھرتے رہے اور آپ بستر تک محدود ہو کر طبیعت سنبھلنے کے منتظر رہے۔
اگر آپ کے ساتھ بھی، شوق کوہ پیمائی تو ہے مگر سانس کون سنبھالے؟ یا کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا ہے، یا آپ نے کچھ ایسی ہی بات اپنے کسی قریبی فرد سے سنی ہے تو تسلی رکھیں یہ کوئی ایسا تشویشناک مسئلہ نہیں جس کا حل نہ ہو۔
آپ پاکستان میں یا کسی اور ملک کے بلند وبالا پہاڑی علاقوں میں سیاحت یا کوہ پیمائی کے لیے اکیلے، دوستوں یا اہلخانہ کے ہمراہ جانا چاہتے ہیں تو نئے ماحول کے پریشان کن اثرات سے بچنے کے لیے کچھ بنیادی طریقوں پر عمل کے ساتھ ساتھ کچھ خاص چیزیں اپنے ہمراہ لے لیں، لیجیے آپ کا مسئلہ حل ہو گیا۔
پاکستان میں کوہ پیمائی سے متعلق چند اہم ناموں میں سے ایک محمد علی سدپارہ نے ایسے افراد کے لیے مختصر مگر پراثر ٹپس شیئر کی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ انتہائی بلند علاقے میں داخلے کے بعد آپ کو ’بلندی چڑھیں مگر آرام نیچے آ کر کریں‘ کے مسلمہ اصول پر عمل کرنا ہو گا۔ اس کے تحت آپ دن میں جتنی بھی بلندی پر جائیں آپ کو رات گزارنے کے لیے اس سے 300 میٹر نیچے آنا چاہیے تا کہ آپ کا جسم نئی بلندی اور اس کے ماحول، کم آکسیجن وغیرہ کے ساتھ ایڈجسٹ ہو سکے۔

ایڈونچر کے شائقین ان ٹپس پر عمل کر کے اپنے تفریحی ٹور کا لطف دوبالا کر سکتے ہیں (فوٹو پکسابے)۔

بلند علاقوں کی سیاحت اور کوہ پیمائی کے شائق افراد کے لیے دی گئی ٹپس میں انہوں نے مزید کہا کہ جب بھی ایسے علاقوں کا رخ کریں تو ابتدائی 24 گھنٹوں میں 2400 میٹر سے زائد بلندی پر نہ جائیں۔ ایسے مقامات پر آنے کے بعد ایک رات وہیں گزاریں پھر مزید بلندی کا سفر اختیار کریں۔
یاد رہے کہ سیاحت کے لیے پاکستان کے معروف کوہستانی مقامات میں مری 2100 میٹر اور ناران اور ہنزہ 2400 میٹر بلندی رکھتے ہیں۔ دیگر معروف مقامات کی سطح سمندر سے بلندی اس سے زیادہ ہے۔ شوگراں 32 سو میٹر، جھیل سیف الملوک 3250 میٹر، سکردو 2600 میٹر بلندی پر واقع ہے۔

محمد علی سدپارہ کے مطابق کراچی یا لاہور اور پنجاب کے میدانی علاقوں سے سفر کرنے والے پہلی رات ناران میں گُزاریں، فورا سیف الملوک جھیل پر نہ جائیں۔ رات گُزار کر اگلے دن جائیں تو آپ ماحول سے باقاعدہ ہم آہنگ ہو جائیں گے۔ اگر ناران سے آگے جا کر رہنا ہو تو لُولُوسر جھیل یا جلکھڈ سے آگے نہ جائیں اور اگر بابوسر ٹاپ پر جانا ہو تو وہاں جا کر شام تک واپس آجائیں تو طبعیت ٹھیک رہے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ بُلندی اور کم آکسیجن کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے ماحوال سے ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ جو چیز سب سے زیادہ فائدہ مند ہے وہ فورا نیچے آنا ہے۔ جہاں بھی آپ کی طبعیت خراب ہو اُس سے کم ازکم 300 میٹر نیچے آجائیں تو آپ ٹھیک محسوس کریں گے، چھ گھنٹے کے وقفے کے بعد دوبارہ جائیں تو آپ کا جسم مقامی ماحول کا عادی ہو چُکا ہو گا۔
حالیہ موسم سرما میں کے ٹو کی چوٹی سر کرنے کی کوششوں میں مصروف پاکستانی کوہ پیما کے مطابق کوہ پیمائی ایسا کھیل ہے جس میں کھلاڑی کو بیک وقت دو محاذوں پر لڑنا پڑتا ہے۔ پہلا محاذ قدرتی موسمی حالات کی شدّت کے ساتھ نبردآزما ہونا ہے جب کہ دوسرا محاذ اپنی ہی جسمانی کیمسٹری کےساتھ جنگ ہے جو کہ نہایت اہم ہوتی ہے۔

کوہ پیمائی کے سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انسانی جسم کی ساخت کچھ ایسی ہے کہ جوں جوں یہ سطح سمندر سے بُلندی کی طرف جاتا ہے تُوں تُوں اُس پر مُختلف تبدیلیوں کے اثرات نُمایاں ہونا شروع ہو جاتے ہیں انسانی جسم دراصل سطح سمندر سے 2400 میٹر سے کم بُلندی پر رہنے کےلیے بنا ہے۔ کیونکہ 2400 میٹر سے زیادہ بُلندی پر انسانی جسم کے خُودکار نظام پر مُختلف منفی اثرات کا آغاز ہوتا ہے۔
بلند علاقوں کا رخ کرتے ہوئے سامان سفر میں کیا کچھ لازما ہونا چاہیے؟ کے سوال کے ساتھ ہم نے گزشتہ موسم سرما میں بغیر آکسیجن دیوسائی پلین کی ایک چوٹی سر کرنے والے کوہ پیما عارف حسن سدپارہ سے گفتگو کی۔
اردو نیوز کے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ آپ کے سامان میں سردی، سر درد سمیت ٹھنڈے علاقے اور بلندی پر جاتے ہوئے پیدا ہونے والے امراض سے متعلق دواؤں کی موجودگی لازم ہے۔
کوہ پیما حسن سدپارہ کے صاحبزادے نے مزید بتایا کہ ایسے علاقوں کا رخ کرتے وقت آپ کے پاس گرم لباس، مخصوص جوتے، رسی اور اس کے کلپس، کم وزن مگر اچھی روشنی کی لائٹ، بلندی چڑھتے ہوئے استعمال ہونے والی چھڑی، سنو گلاسز، سن گلاسز اور ہیلمٹ ہونا بھی ضروری ہے۔

بلند علاقے میں جاتے ہوئے انسانی جسم کا مقامی ماحول سے ہم آہنگ ہونا بہت لازم ہے (فوٹو: پکسابے)

پہاڑی علاقوں کی سیاحت خصوصا کوئی پیمائی کے دوران ہیلمٹ کی لازمی موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل ایک جرمن کوہ پیما بلندی چڑھتے ہوئے راک سلائیڈنگ کا نشانہ بنا، اور سر پر پتھر لگنے سے انتقال کر گیا تھا۔ ایسے مواقع پر ہیلمٹ کی موجودگی زندگی بچانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
بلند و بالا علاقوں کی سیاحت کے شوقین ہوں یا کوہ پیمائی کے ایڈونچر کے دلدادہ، محمد علی اور عارف حسن سدپارہ کی دی گئی یہ ٹپس، ہر دو کی ناصرف صحت کے لیے مفید ہیں بلکہ ان پر عمل کر کے اپنی تفریح کے لمحات کی خوشگواریت بھی برقرار رکھی جا سکتی ہے۔

شیئر: