Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہوسٹن میں بلیک آؤٹ جس نے پاکستانیوں کو ملک کی یاد دلا دی

ہیوسٹن میں عام طور پرسردیوں میں برف باری نہیں ہوتی۔ فوٹو: اے بی سی 13
امریکہ کی ریاست ٹیکساس میں رواں ہفتے برفانی طوفان سے بجلی کی طویل بندش کے بعد وہاں  مقیم پاکستانیوں کو آبائی وطن میں درپیش مشکلات کا اندازہ ہو گیا ہے جہاں کراچی میں گذشتہ سال اگست میں ہونے والی ریکارڈ توڑ بارشوں نے شہریوں کو بدترین صورتحال میں گھروں میں محصور کر لیا تھا۔
امریکہ کی ریاست ٹیکساس کے شہر ہوسٹن امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کے مطابق 15 فروری کو لاکھوں شہریوں کو بلیک آؤٹ کا سامنا رہا جب درجہ حرارت خون جما دینے کی حد تک گرا۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والی ہوسٹن کی رہائشی رومانا یونس نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کے گھر بجلی کے آنے جانے کا سلسلہ تین دن تک جاری رہا جس میں زیادہ تر وقت تو اندھیرے ہی میں گزرا اور سب سے مشکل تھا گھر میں بیٹھے رہنا اور بچوں کو بھی بٹھانا۔
'مجھے امریکہ آئے ہوئے آٹھ سال ہوگئے ہیں اور ان آٹھ سالوں میں پہلی بار ہم نے ایک ہی دن میں تین چار موم بتیاں استعمال کر لیں۔'
رومانا بتاتی ہیں کہ انہیں پاکستان میں بجلی جانے کے دن یاد آگئے۔ 'لیکن اس لحاظ سے پاکستان بہتر اس طرح ہے کہ وہاں ایسا اتنی بار ہوتا ہے کہ اب لوگ تیار رہتے ہیں اور اتنی پریشانی نہیں ہوتی جتنی یہاں ہوئی۔'
پیو ریسرچ سینٹر کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ کے شہروں میں پاکستانیوں کے بڑی تعداد کے لحاظ سے کچھ عرصہ قبل تک ہوسٹن تیسرے نمبر پر تھا۔
رومانا یونس ںے بتایا کہ ہوسٹن میں عام طور پر برف باری نہیں ہوتی اسی لیے ان کے اہلِ خانہ نے برف باری میں خود کو گرم رکھنے کی تیاری نہیں کی تھی۔

پیو ریسرچ سینٹر کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ کے شہروں میں پاکستانیوں کے بڑی تعداد کے لحاظ سے کچھ عرصہ قبل تک ہوسٹن تیسرے نمبر پر تھا۔ فوٹو: ان سپلیش

ان کا کہنا تھا کہ موسم کی پیش گوئی تو پہلے سے کر دی گئی تھی اور بجلی جانے کا بھی اشارہ دے دیا گیا تھا لیکن بات تین دن تک کے بلیک آؤٹ کو پہنچ جائے گی اس کا اندازہ انہیں اور دیگر رہائشیوں کو نہیں تھا۔
'چونکہ ہمیں ڈر تھا کہ گھر سے باہر نہیں نکل سکیں گے تو اعلان ہوتے ہی سب نے مارکیٹوں کا رُخ کر لیا تھا اور کھانے پینے کی اشیا گھر میں لا کر رکھ لی تھیں۔'
انہوں نے مزید بتایا کہ ’شہریوں کو گھر کی پانی کی پائپس کا بھی خاص خیال رکھنے کے لیے کہا گیا تھا کہ رات کو نل تھوڑے سے کھلے رکھیں تاکہ پانی بہتا رہے اور پائپس کے پھٹنے کا ڈر نہ ہو تو لوگوں نے ایک رات پہلے سے یہ بھی کر لیا تھا۔'
امریکہ میں بجلی کی طویل بندش کے پہلے تجربے کے بارے میں بتاتے ہوئے رومانا نے کہا کہ 15 فروری، یعنی پیر کو جب وہ لوگ صبح چھ بجے اٹھے تو کھڑکی سے باہر ارد گرد برف دیکھ کر سب اس قدر خوش ہوئے کہ اس سے لطف اندوز ہوتے ہوئے پورا دن ہی گزر گیا اور بجلی جانے کی پریشانی نہیں ہوئی۔
'پیر کو پریزیڈنٹس ڈے تھا تو سکول تو بند دے تھے لیکن دفاتر کھلے تھے۔ پہلا دن تو برف باری کی خوشی میں گزر گیا اور رات کو بجلی آگئی تو وہ رات خیر سے گزر گئی لیکن منگل کو دوبارہ صبح بجلی گئی تو دن ڈھلنے تک مشکل شروع ہونے لگی۔'

پہلا دن تو برف باری کی خوشی میں گزر گیا اور رات کو بجلی آگئی تو وہ رات خیر سے گزر گئی۔'

انہوں نے بتایا کہ 'نہ ہمارے فونز چارجڈ تھے نہ ہی بچوں کی بوتلیں سٹیرلائزڈ تھیں۔ ہمیں یہ سب کرنے ایک رشتہ دار کے گھر جانا پڑا۔ وہاں بجلی اس وجہ سے تھی کہ ان کا گھر ایک ایسی بندرگاہ کے نزدیک ہے جہاں رئیسوں کے جہاز کھڑے ہونے ہیں تو شاید اس لیے ان کی بجلی نہیں گئی تھی لیکن چونکہ رشتہ داروں کے گھر اور بھی افراد موجود تھے تو انہیں اپنے گھر واپس آنا پڑا۔‘
شہر میں بجلی فراہم کرنے والے ادارے کو کال کرنے پر بھی کسی سے بات نہیں ہو پارہی تھی اور فون ملانے پر آٹومیٹڈ ریکارڈنگ سنائی جا رہی تھی۔ ان ریکارڈنگز کو سنتے، کپڑوں کی تہوں میں خود کو سنبھالنے اور موم بتیوں کو پگھالتا دیکھتے ہوئے ہی بالاخر بدھ کی رات کو ان کے گھر بجلی آگئی۔

شیئر: