Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سوشل میڈیا پر انتہا پسند نظریات کو روکنے کے لیے کام کر رہے ہیں‘

افواج پاکستان کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ ’سوشل میڈیا کو مکمل طور پر کنٹرول نہیں کیا جا سکتا تاہم اس پر انتہا پسند نظریات کی تشہیر روکنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘
پیر کو راولپنڈی میں آپریشن ردالفساد کے چار سال پورے ہونے کے موقع پر بریفنگ دیتے ہوئے میجر جنرل بابر افتخار نے شدت پسند تنظیموں کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو استعمال کرنے اور ان کے خلاف کارروائی کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر کہا کہ ’سوشل میڈیا پر اس طرح کے مواد کا بہت پھیلاؤ ہے۔‘
’سوشل میڈیا جتنا پھیل چکا ہے تو اس کو موثر انداز سے ریگولیٹ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس کی مد میں کوشش کی جا رہی ہے کہ نفرت انگیز مواد، شدت پسندانہ مواد یا ایسی تنظیمیں جو اپنا نظریہ سوشل میڈیا پر پھیلاتی ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرتی ہیں، انھیں ٹارگٹ کیا جا سکے۔ اس پر بہت حد تک کام ہو چکا ہے اور بہت جلد حکومت قانون سازی کر رہی ہے۔‘

 

سوشل میڈیا پر پاکستان اور فوج مخالف سرگرمیوں کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’جیسے تھریٹس کا طریقہ کار تبدیل ہو رہا ہے ویسا ہی رسپانس بھی تبدیل کیا جا رہا ہے۔‘
میجر جنرل بابر افتخار نے مزید کہا کہ ’سوشل میڈیا کے معاملے میں ابھی کچھ کام ہونا باقی بھی ہے اور اس حوالے سے قانون سازی بھی ہو رہی ہے کیونکہ سوشل میڈیا کے بڑے اداروں کے دفاتر بھی پاکستان میں نہیں ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سوشل میڈیا پر کوئی جو بھی لکھ دے لوگ اس کی تصدیق کیے بغیر درست سمجھ لیتے ہیں۔‘

آپریشن ردالفساد کے دوران تین لاکھ 72 ہزار سے زائد انٹیلیجنس آپریشنز کیے جا چکے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سوشل میڈیا پر خاص طور پر انڈیا کی جانب سے ہونے والے پروپیگنڈے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’یہ چیزیں مانیٹر ہوتی ہیں اور ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ جس قسم کا پروپیگنڈا انڈیا کی جانب سے کیا جا رہا ہے اس کی اب کوئی ساکھ نہیں رہی۔‘
انہوں نے انڈین اینکر ارنب گوسوامی کی چیٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اس سے بہت کچھ ظاہر ہو گیا ہے۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے سوشل میڈیا پر آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی تبدیلی کے حوالے سے گردش کرنے والی خبروں کو مکمل مسترد کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’اس طرح کی قیاس آرائیاں نہیں ہونی چاہیں، فوج کے اندر تبادلے اپنی مدت کے اندر ہوتے ہیں اور فوج کے اندر ہر ادارے میں تعیناتی عام طور پر دو سال کے لیے ہوتی ہے۔‘

میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا ہے ارنب گوسوامی کی چیٹ سے بہت کچھ ظاہر ہو گیا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

آپریشن ردالفساد کے حوالے سے میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ ’اس آپریشن کا دائرہ کار پورے ملک میں تھا۔ جس کا مقصد عوام کا ریاست پر اعتماد بحال کرنا اور دہشتگری کی کوششوں کو غیرموثر بنانا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ردالفساد کا بنیادی محور عوام ہے اور ہر پاکستان اس آپریشن کا حصہ ہے۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے دہشت گردوں کے حوالے سے کہا کہ ’دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں نے پاکستان کے طول و عرض میں پناہ لینے کی کوشش کی۔ آپریشن میں دہشت گردوں اور انتہا پسندی کو نشانہ بنایا گیا۔‘
میجر جنرل بابر افتخار نے آپریشن ردالفساد کے حوالے سے بتایا کہ ’چار سال میں تین لاکھ 72 ہزار سے زائد انٹیلیجنس آپریشنز کیے جا چکے ہیں۔ جن میں پنجاب میں 34 ہزار، بلوچستان میں 80 ہزار، کے پی کے میں 92 ہزار اور سندھ میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد آپریشنز ہوئے۔‘
میجر جنرل بابر افتخار نے پاک افغان بارڈر کے حوالے سے کہا کہ ’یہاں کراس بارڈر فائرنگ کے 16 سو 84 واقعات ہوئے ہیں جبکہ باڑ کا کام 84 فیصد مکمل ہو چکا ہے۔‘
انہوں نے افغان امن عمل کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر جواب دیا کہ ’افغانستان کے امن سے پاکستان کا امن جڑا ہے۔ پاکستان کا امن عمل میں حصہ سہولت کار کا رہا ہے لیکن حتمی فیصلہ افغان عوام اور اس کی قیادت کو کرنا ہے۔‘
میجر جنرل بابر افتخار نے 23 مارچ کو یوم پاکستان کے موقع پر پریڈ کے انعقاد کا بھی اعلان کیا۔ 

شیئر: