Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈسکہ میں کمسن طالبہ اور ٹیچر کے مجسموں کی توڑ پھوڑ: ’یہاں اور کیا توقع کی جا سکتی ہے‘

پاکستان کے صوبہ پنجاب کی تحصیل ڈسکہ میں ایک کمسن طالبہ اور کتابوں کے سامنے کھڑے ایک استاد کے مجسمے توڑے گئے، اس معاملے کی تصاویر سوشل میڈیا پر آئیں تو اس پر گفتگو کرنے والوں نے صورتحال پر افسوس کا اظہار کیا۔
نوید احمد بٹ نامی ایک صارف نے مجسموں کی حالیہ تصاویر شیئر کیں تو ان میں نمایاں ہے کہ طالبہ کے مجسمے پر سر موجود نہیں جب کہ استاد کے مجسمے کے گلی میں رسی پڑی ہے اور اس کا ایک بازو غائب ہے۔
ٹوئٹر صارف نے تصاویر شیئر کرتے ہوئے اس کے ساتھ کیے گئے تبصرے میں لکھا ’جہاں لڑکی کے نام پر پتھر محفوظ نہیں وہاں کیا اور توقع کی جا سکتی ہے‘۔
 

معاملے پر گفتگو کرنے والے صارفین کے مطابق چند ماہ قبل ڈسکہ میں بوائز کالج کے قریب واقع چوک کی تزئین و آرائش کی گئی تو یہاں ایک بچی اور مرد کا مجسمہ نصب کیا گیا تھا جن کے سامنے کتابیں رکھی دکھائی گئی تھیں۔
خرم نامی ایک صارف نے مجسموں کی اصل تصویر کے ساتھ موجودہ تصویر شیئر کی تو اپنے تبصرے میں لکھا ’بطور معاشرہ ہم تعلیم، جمہوریت، رواداری اور روشن خیالی کے مستحق نہیں ہیں‘۔
 

مجسموں کی توڑ پھوڑ کے بعد ہونے والی گفتگو میں کچھ صارفین کو سماجی رویوں سے متعلق شکایت ہوئی تو وہ اپنی اس تشویش کا اظہار کیے بغیر رہ نہ سکے۔
 

سماجی رویوں کے ساتھ موجودہ حالات کا ذکر ہوا تو ’آئی ایم‘ نامی ہینڈل نے لکھا ’یہ قوم ایک عذاب سے گزر رہی ہے اور اس کی وجہ نہیں تلاش کر رہی‘۔
 

زویا طارق نامی ہینڈل کو مجسمے توڑے جانے کے عمل سے ملنے والے پیغام کے متعلق تشویش ہوئی تو انہوں نے لکھا ’مجسموں کو بحال کیا جانا چاہیے اور جنہوں نے ایسا کیا ہے انہیں فورا گرفتار کیا جانا چاہیے‘۔

مرد اور بچی کے مجسموں سے متعلق گفتگو پاکستانی ٹائم لائنز سے آگے بڑھ کر پڑوسی ملک انڈیا پہنچی تو صارفین اس کے پس پردہ اسباب کے متعلق اندازے قائم کرتے رہے۔
 

مجسمے توڑنے والوں کی نشاندہی کے بعد ان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا تو متعلقہ اداروں سے توقع ظاہر کی گئی کہ وہ اس معاملے کو نظرانداز نہیں ہونے دیں گے۔
ڈسکہ کے گورنمنٹ ڈگری کالج فار بوائز چوک میں اپنے خرچ سے چوک کی تزئین و آرائش کرنے اور مجمسے بنوانے والے احمد فاروق ساہی نے پولیس کو دی گئی درخواست میں کہا ہے کہ نامعلوم ملزمان کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے احمد فاروق کا کہنا تھا کہ بچیوں کی تعلیم سے متعلق آگاہی کے لیے ایک طالبہ اور ایک استاد کا مجسمہ بنوایا تھا، جس میں کتابوں کے سامنے موجود استاد حصول علم میں دلچسپی لیتی بچی سے شفقت کا برتاؤ کرتے دکھائے گئے تھے۔

پولیس کو شکایت میں نامعلوم ملزمان کے خلاف فوری کارروائی کی درخواست کی گئی ہے (فوٹو: احمد فاروق ساہی)

ایس ایچ او ڈسکہ سٹی اعجاز بٹ نے اردو نیوز کے نامہ نگار رائے شاہنواز کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ مجمسے کی توڑ پھوڑ کرنے والوں کی کھوج لگائی جا رہی ہے۔ اس کے لیے سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد لی جا رہی ہے۔ ’ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ مجسموں کی توڑ پھوڑ کے پیچھے کون ہے۔ پولیس ہر صورت میں ملزمان کو تلاش کرے گی‘۔

شیئر: