Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈسکہ میں دوبارہ پولنگ، الیکشن کمیشن کا حکم سپریم کورٹ میں چیلنج

تحریک انصاف کے امیدوار نے درخواست میں الیکشن کمیشن اور مسلم لیگ ن کی امیدوار کو فریق بنایا ہے۔ فوٹو: روئٹرز
تحریک انصاف کے امیدوار علی اسجد ملہی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے این اے 75 ڈسکہ میں دوبارہ ضمنی انتخاب کرانے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے عدالت سے حکم نامے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے۔
 اردو نیوز کے نامہ نگار بشیر چوہدری کے مطابق جمعے کو سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کے امیدوار علی اسجد ملہی کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے دستیاب ریکارڈ کا درست جائزہ نہیں لیا اور حلقے میں دوبارہ انتخاب کا کوئی جواز نہیں۔

 

حلقے میں گزشتہ ماہ 19 فروری کو منعقد ہونے والے ضمنی الیکشن میں کئی پولنگ سٹیشنز پر تشدد کے واقعات پیش آئے تھے جس کے بعد انتخابی نتائج روک دیے گئے تھے۔ الیکشن کمیشن نے حلقے میں پولنگ ڈے پر فائرنگ اور دو افراد کی ہلاکت کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ پولیس افسران کے خلاف انضباطی کارروائی کی ہدایت کی تھی جبکہ حلقے میں 18 مارچ کو دوبارہ پولنگ کرانے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ میں دائر درخواست کے مطابق ’ازسر نو الیکشن کرانے کا مطلب حلقے کے عوام کو دوبارہ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کا سامنا کرانا ہے، مخالفین پہلے ہی ضمنی الیکشن میں شکست سے دوچار ہو چکے ہیں۔‘
 الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے تحریک انصاف کے امیدوار نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ حقائق کے برعکس ہے، اس لیے 19 فروری کے این اے 75 ڈسکہ کے انتخابی نتائج جاری کرنے کا حکم دیا جائے۔
علی اسجد ملہی نے سپریم کورٹ سے یہ استدعا بھی کی ہے کہ الیکشن کمیشن کا ضمنی الیکشن کو کالعدم قرار دے کر نیا الیکشن کرانے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔
تحریک انصاف کے امیدوار نے درخواست میں میں مسلم لیگ ن کی امیدوار نوشین افتخار، الیکشن کمیشن اور دیگر کو فریق بنایا ہے۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے میں لکھا گیا کہ ’اس سے حلقے میں خوف و ہراس پھیلایا گیا اور نتائج مشکوک رہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

یاد رہے کہ الیکشن کمیشن میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے این اے 75 سے امیدواروں نے ضمنی انتخاب میں بدنظمی اور دھاندلی کی شکایات پر درخواستیں دائر کی تھیں جس پر طویل سماعت کے بعد چیف الیکشن کمشنر نے مختصر تحریری فیصلے میں قرار دیا تھا کہ ’پولنگ کے دن کے دوران حلقے میں خوش گوار ماحول نہیں تھا۔ فائرنگ کے واقعات ہوئے جس میں قیمتی جانوں کا بھی ضیاع ہوا۔‘
الیکشن کمیشن کے فیصلے میں لکھا گیا کہ ’اس سے حلقے میں خوف و ہراس پھیلایا گیا اور نتائج مشکوک رہے۔‘
الیکشن کمیشن کی جانب سے سنائے گئے مختصر فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ’ایسی صورت حال میں الیکشن کو صاف شفاف اور آزادانہ قرار نہیں دیا جا سکتا اس لیے ڈسکہ ضمنی انتخابات 18 مارچ دوبارہ کروائیں جائیں۔‘

شیئر: