Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈسکہ میں دوبارہ پولنگ:’اس طرح کے فیصلے کی پہلے کوئی مثال نہیں‘

پاکستان میں ماضی میں بھی انتخابات تنازعات کا شکار ہوتے رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
الیکشن کمیشن کی جانب سے ڈسکہ کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 75 کے ضمنی انتخاب کو کالعدم قرار دینے اور پورے حلقے میں دوبارہ انتخابات کا فیصلہ حکومت کے لیے ایک بڑا سیاسی دھچکہ تو ہے ہی لیکن یہ فیصلہ کئی حوالوں سے منفرد ہے جس کی ماضی قریب میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔
اپنے تحریری فیصلے میں الیکشن کمیشن نے واضح طور پر تحریر کیا ہے کہ ’اس الیکشن کو صاف شفاف اور آزادانہ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ پولنگ کے دن حلقے میں خوشگوار ماحول نہیں تھا۔ فائرنگ کے واقعات ہوئے جس میں قیمتی جانوں کا بھی ضیاع ہوا۔  حلقے میں خوف و ہراس پھیلایا گیا اور نتائج مشکوک رہے۔‘
سیاسی مبصرین اور الیکشن کمیشن کے سابق افسران کے مطابق کسی انتخابی تنازع میں ایک حکومت کے خلاف  اس طرح کے سخت فیصلے کی مثال نہیں ملتی۔
الیکشن کمیشن کے ایک اہلکار کے مطابق ماضی میں بھی شکایات آتی رہیں کہ کسی خاص حلقے میں بدانتظامی یا تشدد کے واقعات ہوئے تاہم اس صورت میں زیادہ تر چند پولنگ سٹیشنز میں دوبارہ ووٹنگ کا حکم دیا جاتا تھا۔
’عام طور پر اس طرح کے کیسز میں الیکشن ٹربیونل فیصلہ دیا کرتا تھا کہ کسی حلقے میں امیدوار نا اہل ہو گیا تو وہاں دوبارہ پورے حلقے میں الیکشن ہوتے تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے عام انتخابات 2018 میں خواتین کے 10 فی صد سے کم ووٹنگ پر خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ کے صوبائی حلقے 23 وَن میں دوبارہ پولنگ کا حکم دیا تھا تاہم وہ پہلے سے قانون میں طے شدہ تھا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ڈسکہ کیس اپنی مثال آپ ہے۔
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’شفاف الیکشن کے حوالے سے مستقبل میں اس فیصلے کے دور رس نتائج ہوں گے ۔‘

الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’اس الیکشن کو صاف شفاف قرار نہیں دیا جا سکتا‘ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں الیکشن کمیشن کے حکم پر ری الیکشن تو پہلے بھی ہو چکے ہیں مگر الیکشن کمیشن نے اس طرح کھل کر پہلی دفعہ ریمارکس دیے ہیں جن میں پوری صوبائی حکومت کے کردار پر سوالیہ نشان اٹھائے ہیں۔
کنور دلشاد نے مزید کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 10 کے تحت الیکشن کمیشن کی حکم عدولی پر اب صوبائی چیف سیکرٹری، آئی جی پنجاب اور دیگر اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔
یاد رہے کہ الیکشن قوانین کے تحت کمیشن کو ہائی کورٹس کے ججوں کے برابر وسیع اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔
گزشتہ تین دہائیوں سے سیاسی معاملات کی کوریج کرنے والے دی نیوز کے سینیئر صحافی طارق بٹ کا کہنا تھا کہ دھاندلی کی شکایات تو پاکستان میں ہر الیکشن کے بعد ہوتی ہیں تاہم انہیں یاد نہیں پڑتا کہ کمیشن کی طرف سے اس سے قبل اس طرح کا فیصلہ ایک حکومت کے خلاف آیا ہو۔

ماضی کے الیکشن تنازعات

پاکستان میں ماضی میں انتخابات تنازعات کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ 1973 کے آئین کی منظوری کے بعد ہونے والے پہلے انتخابات جو 1977 میں منعقد ہوئے تھے اتنے متنازع ہوئے کہ اپوزیشن کی تحریک کے نتیجے میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم ہو گئی اور ملک میں مارشل لا لگا دیا گیا۔

سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ ’شفاف الیکشن کے حوالے سے مستقبل میں اس فیصلے کے دور رس نتائج ہوں گے ‘ (فوٹو: ن لیگ ٹوئٹر)

اس کے بعد نوے کی دہائی کے انتخابات میں بھی دھاندلی کی بازگشت سنائی دیتی رہی مگر اس کا کوئی قابل ذکرنتیجہ نہیں نکلا۔ تاہم 2013 کے انتخابات کے بعد موجودہ حکمران جماعت پی ٹی آئی نے دھاندلی کا الزام لگایا اور حکومت کے خلاف ایک زبردست تحریک چلائی۔ تاہم اس تحریک سے بھی کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا اور بالآخر منظم دھاندلی کے ثبوت نہ ملنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کے نتائج کو تسلیم کر لیا گیا۔
2018 کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی برسر اقتدار آئی تو اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کیا تاہم الیکشن کمیشن نے سال 2013 کی طرح نتائج برقرار رکھے۔
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے یاد دلایا کہ کمیشن نے 2004 میں کراچی میں الیکشن کے دوران تشدد کے واقعات کی شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے چار حلقوں میں دوبارہ انتخابات کا حکم دیا تھا۔

شیئر: