Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں غیر معروف کورونا ویکسین کمپنیوں کا انتخاب کیوں؟

کابینہ کو بھیجی گئی سمری کے مطابق روسی ویکسین سپتنک فائیو کے دو انجیکشنز کی قیمت 8 ہزار چار سو 49 روپے تجویز کی گئی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں وفاقی کابینہ کورونا ویکسین کے کمرشل استعمال کرنے کے لیے روس کی تیار کردہ ’سپتنک فائیو‘ اور چینی کمپنی کی ’کین سینو بائیو‘ ویکسین کی قیمتیں مقرر کر چکی ہیں۔
پاکستان میں ادویات کی قیمتوں کا تعین کرنے والے ادارے ڈرگ ریگیولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کی جانب سے کابینہ کو بھیجی گئی سمری کے مطابق روسی ویکسین سپتنک فائیو کے دو انجیکشن کی قیمت 8 ہزار چار سو 49 روپے جبکہ چینی کمپنی کی تیار کردہ کین سینو بائیو کے ایک انجیکشن کی قیمت 4 ہزار دو سو 25 روپے مقرر کرنے کی سفارش کی تھی۔
تاہم ان ویکسینز کو درآمد کرنے والی نجی کمپنیوں نے اعتراض کیا ہے کہ انھوں نے یہ ویکسین زیادہ قیمت میں درآمد کی ہے، جس کے بعد کابینہ نے ڈریپ کو ان قیمتوں پر نظرثانی کی ہدایت کی ہے، اور اب امکان ہے کہ ان ویکسینز کی قیمت تجویز شدہ قیمت سے بھی زیادہ ہوگی۔
ایک طرف تو سوشل میڈیا پر دونوں طرح کی ویکسینز کی دوسرے ممالک کی نسبت زیادہ قیمت مقرر کرنے پر اعتراض کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف عوامی سطح پر یہ اعتراض بھی سامنے آ رہا ہے کہ آخر پرائیویٹ سیکٹر کے لیے دو نسبتا کم معروف ویکیسن کمپنیوں کا انتخاب کیوں کیا گیا ہے؟
اس حوالے سے اردو نیوز نے ڈریپ کے دو اعلیٰ اہلکاروں سے بات چیت کی تو انہوں نے بتایا کہ ’کورونا ویکسین کی دنیا بھر میں مانگ کے باعث یہ خاصا مشکل ہے کہ اس وقت کسی بھی ذریعے سے پوری آبادی کے لیے ویکیسن کا حصول یقینی بنایا جا سکے۔‘

ڈریپ اہلکار کے مطابق سائنو فارم کی درآمد کی اجازت قومی ادارہ صحت کو دی جا چکی ہے جو حکومتی سطح پر ویکسین خریدے گا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

صرف دو کمپنیاں ہی کیوں؟

صرف دو نسبتا کم معروف ویکسین کمپنیوں کو پاکستان میں اجازت ملنے کے حوالے سے سوال پر ڈریپ کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ ’اگر باہر کی کمپنیاں پاکستان میں ویکسین بیچنا ہی نہ چاہیں تو ڈریپ یا حکومت ان کو مجبور تو نہیں کر سکتی۔‘
اہلکار کا کہنا تھا کہ ’سپتنک فائیو اور کین سائنو کے لیے مقامی کمپنیوں نے ڈریپ سے رابطہ کیا تو انہیں جائزے کے بعد اجازت مل گئی ۔ برطانوی ویکیسن ایسٹرازینیکا انڈیا میں بتنی ہے اس نے پاکستان میں پرائیویٹ سطح پر درآمد کے لیے اجازت نہیں مانگی۔ اسی طرح امریکی کمپنی فائزر پاکستان میں کولڈ چین مسائل کی وجہ سے دستیاب نہیں ہے۔‘
ڈریپ کے ترجمان اختر عباس کا کہنا تھا کہ ’ایسا نہیں کہ روسی یا چینی ویکسین میں کوئی خامی ہے یا ان ممالک کے ڈیٹا کو قابل اعتبار نہیں قرار دیا جا سکتا۔ بلکہ ان ممالک میں بھی ویکسین کو ٹرائل کے مراحل سے گزارا گیا ہے اور اس کے علاوہ دنیا کے چند دیگر ممالک میں بھی ان ویکسینز کے ٹرائل ہوئے ہیں۔‘
ترجمان نے بتایا کہ ’اس کے بعد پاکستان میں بھی ڈریپ کی بائیولوجیکل ایکسپرٹ کی کمیٹی نے ویکسین کا جائزہ لیا اور پھر اسے منظور کیا۔‘
اختر عباس کے مطابق ڈریپ کی کمیٹی نامور ماہرین پر مشتمل ہے اور اس نے ایک اور ویکسین کو معیاری نہ ہونے پر مسترد بھی کیا ہے۔ اس لیے عوام کو اطمینان رکھنا چاہیے کہ یہ ویکسین معیاری ہے۔ اس کے علاوہ ویکسین کو اجازت ایمرجنسی استعمال کی ملی ہے گویا جب اس میں کوئی شکایت موصول ہوئی تو اجازت منسوخ کی جا سکتی ہے۔

ڈریپ ترجمان کا کہنا ہے کہ ڈریپ کی بائیولوجیکل ایکسپرٹ کی کمیٹی نے ویکسین کا جائزہ لیا اور پھر اسے منظور کیا۔ (فوٹو: روئٹرز)

ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں آٹھ، دس کمپنیاں کورونا ویکسین بنا رہی ہیں اور ان کی مانگ بہت زیادہ ہے۔ اس لیے یہ ممکن نہیں کہ ہر کسی کو اس کی پسند کی کمپنی کی ویکسین مل سکے۔
اس سوال پر کہ پرائیویٹ سیکٹر میں مشہور چینی ویکسین سائنو فارم کیوں دستیاب نہیں، ترجمان ڈریپ کا کہنا تھا کہ ’اتھارٹی صرف ایک ادارے کو ایک طرح کی ویکسین کی درآمد کی اجازت دیتی ہے اور سائنو فارم کی درآمد کی اجازت قومی ادارہ صحت کو دی جا چکی ہے جو حکومتی سطح پر ویکسین خریدے گا۔‘

قیمت پاکستان میں زیادہ کیوں طے کی گئی؟

ویکسین کی قیمت کے حوالے سے ڈریپ کے اہلکار کا کہنا تھا کہ ’سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیلائی جا رہی ہیں کہ روسی ویکسین 10 ڈالر میں دستیاب ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’انڈیا میں روسی ویکیسن کی دو خوراکیں 20 ڈالر کی ملتی ہیں اور وہ بھی پرائیویٹ سیکٹر کو نہیں بلکہ حکومت کو، جو بڑی مقدار میں ویکسین خریدتی ہے۔ اس کے علاوہ انڈیا یہ ویکیسن اپنے ملک میں بنا رہا ہے جس کی وجہ سے اس پر لاگت کم آتی ہے۔‘

ڈریپ کے مطابق فائزر کی ویکسین  پاکستان میں کولڈ چین مسائل کی وجہ سے دستیاب نہیں ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

دوسری طرف ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایسا وقت نہیں کہ ہم کمپنیوں کو زیادہ پابند کر سکیں کیونکہ زیادہ مانگ کی وجہ سے کمپنیاں بآسانی انکار کر دیتی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں پرائیویٹ ویکیسن کی اجازت دی گئی ہے اس لیے پرائیویٹ سطح پر قیمتوں کے تعین کے لیے کوئی مثال موجود نہیں جس سے پاکستان استفادہ کر سکے۔‘
ڈریپ کے اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ ’ابھی تک دونوں کمپنیوں نے صرف پچاس پچاس ہزار خوراکیں باہر سے درآمد کی ہیں۔ ویکسین کی بڑی مقدار دستیاب ہی نہیں ہے۔‘

شیئر: