Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانیہ کی میانمار کے سفارت خانے سے ’نکالے جانے والے‘ سفیر کو پناہ کی پیشکش

سفیر کیو زوار من نے برطانوی حکومت سے مداخلت کی اپیل کی تھی (فوٹو: جکارتہ پوسٹ)
میانمار کی فوج سے وابستہ ایک شخص کی طرف سے لندن میں میانمار کے سفارت خانے سے بے دخل کیے جانے والے سفیر کو پناہ کی پیشکش کی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برطانیہ کی طرف سے کیو زوار من کو سفیر کے طور پر نہ ماننے کے بعد ان کی جمعرات کو برطانیہ کے وزیر خارجہ برائے ایشیا نیگل ایڈمز کے ساتھ ملاقات ہوئی۔
نیگل ایڈمز نے کہا کہ ’میں ان کی جرات اور محب الوطنی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ ہم برطانیہ میں ان کی سکیورٹی کا خیال رکھیں گے۔‘
برطانیہ نے کیو زوار من کو سفارت خانے سے نکالے جانے کی مذمت کی تھی جنہوں نے نکالے جانے کے بعد رات اپنی کار میں گزاری تھی۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ’مسٹر من کے ساتھ تضحیک آمیز رویے پر ہم ان کے برطانیہ میں محفوظ قیام کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
کیو زوار من نے برطانیہ سے مدد کی درخواست کی تھی اور یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر وہ میانمار واپس گئے تو انہیں مار دیا جائے گا۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بدھ کو ہونے والا یہ غیر معمولی سفارتی تنازع میانمار کے سفیر کی جانب سے فوجی حکومت سے اقتدار سے بے دخل کی گئی عوامی رہنما آنگ سان سوچی کی رہائی کے مطالبے کے ایک مہینے بعد ہوا۔
مظاہرین لندن کے مے فیئر کے علاقے میں واقع سفارتی عمارت کے باہر سفیر کیو زوار من کے ساتھ جمع ہوئے۔ جبکہ ایسی اطلاعات آئی تھیں کہ کیو زوار من کو بند کر دیا گیا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اندر کون ہے، تو انہوں نے جواب دیا ’دفاعی اتاشی، انہوں نے میرے سفارت خانے پر قبضہ کر لیا ہے۔
میانمار کے سفیر نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وہ ساری رات سفارت خانے کے باہر کھڑے رہیں گے۔ یہ میری عمارت ہے۔‘
میانمار میں فوج کی جانب سے یکم فروری کو منتخب رہنما آن سان سوچی کو معزول کرنے کے بعد سے حالات کافی خراب ہیں۔ فوجی حکومت کے خلاف مظاہروں میں اب تک چھ سو کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس پر عالمی سطح پر کافی غم وغصے کا اظہار کیا گیا۔ 
سفیر کیو زوار من نے برطانوی حکومت سے مداخلت کی اپیل کی تھی۔

شیئر: