Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہلمند کی نرس ’خواتین کی آگاہی کے لیے لائبریری اپنی تنخواہ‘ سے چلاتی ہیں

مشکل حالات میں افغان خواتین تعلیم اور روزگار کے حوالے سے جدوجہد کر رہی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
افغانستان کے جنوبی صوبے ہلمند کے ایک مقامی ہسپتال میں کام کرنے والی نرس حمیرا نوروزی کا کہنا ہے کہ وہ خواتین مریضوں کی جبری شادیوں، گھریلو تشدد اور زیادتی کے تجربات سننے کی عادی ہیں۔
عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے دو سال قبل ایک مخصوص واقعے کا ذکر کیا جب ایک خاتون کا ایک بازو اور ایک پاؤں دھماکے میں ضائع ہوا اور وہ ہسپتال میں غمزدہ پڑی ہوئی تھیں۔
’وہ مریضہ اس لیے نہیں رو رہی تھیں کہ وہ اپنے پاؤں اور ٹانگ سے محروم ہوئیں بلکہ ان کا شوہر خاندان کی دیکھ بھال کے لیے دوبارہ شادی کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔‘
ہلمند افغانستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جو 60 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے یا تقریباً آئرلینڈ جتنا ہے۔ یہ صوبہ افغان طالبان کے گڑھ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔
ان ہلا دینے والی واقعات کی وجہ سے نوروزی نے محسوس کیا کہ انہیں خواتین کی مدد کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔
22 سالہ حمیرا نوروزی نے بتایا ’میں چاہتی تھی کہ ان خواتین کو ان کے بنیادی حقوق کے بارے میں آگاہ کروں، ایک راستہ یہ تھا کہ ان کے لیے ایک لائبریری قائم کروں۔‘
ہلمند کے خواتین کے معاملات سے متعلقہ محکمے کی سربراہ شیرین وفا کے ساتھ انہوں نے اپنا آئیڈیا شیئر کیا جنہوں نے صوبائی دارالحکومت لشکر گاہ میں لائبریری قائم کرنے کے لیے ایک کمرے کی پیشکش کی۔ یہ خواتین کی پہلی لائبریری تھی جو طالبان کے دور حکومت اور ان کے حکومت کے خاتمے کے بعد کئی برسوں تک بند رہی۔
2001 میں افغان طالبان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد افغان خواتین نے تعلیم، ووٹ دینے اور گھروں سے باہر کام کرنے کا حق دوبارہ حاصل کیا ہے۔
اب بھی خصوصاً دیہی علاقوں میں خواتین کے مسائل موجود ہیں، تاہم خاص طور پر دارالحکومت کابل میں خواتین کے کام کرنے کے لیے صورتحال بہتر ہوگئی ہے اور وہاں ہزاروں خواتین کام کرتی ہیں جبکہ خواتین کا ایک چوتھائی سے زیادہ حصہ پارلیمان میں بھی موجود ہے۔
لشکر گاہ کی اس لائبریری نے خواتین کی ایک مختصر تعداد کو اپنی جانب متوجہ کیا۔
اس لائبریری تک خواتین کے لیے پہنچنے میں مشکلات کی وجہ سے نوروزی نے فیصلہ کیا کہ اس کو دوبارہ کھولنا وقت کا ضیاع ہے اور ان کو اپنے وسائل کہیں اور لگانے چاہییں۔

حمیرا نوروزی کی لائبریری میں 850 کتابیں موجود ہیں جو پشتو اور دری زبان میں ہیں (فوٹو: سپلائیڈ)

انہوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ’اسلام میں خواتین کا کردار‘ اور ’خواتین اور معاشرہ‘ جیسی اپنی پسندیدہ کتابوں کی کاپیز پوسٹ کرنا شروع کیں تاہم سمارٹ فونز نہ ہونے کی وجہ سے خواتین کی رسائی ان تک نہ تھی۔
انہوں نے جنوری میں لشکر گاہ میں ایک پرائیویٹ لائبریری قائم کی، جو کہ ایک چھوٹے سے کمرے میں بنائی گئی ہے۔
اس لائبریری میں صرف آٹھ لوگ بیٹھ سکتے ہیں۔ لائبریری سے مرد بھی کتابیں حاصل کر سکتے ہیں۔
لائبریری کرائے کی ایک چھوٹی سی دکان میں بنائی گئی ہے جس کا کرایہ حمیرا نوروزی اپنی تنخواہ سے ادا کرتی ہیں۔
حمیرا نوروزی کی لائبریری میں 850 کتابیں ہیں جو پشتو اور دری زبان کی ہیں۔

لائبریری میں خواتین کے لیے دوپہر کا وقت مختص کیا گیا ہے (فوٹو: سپلائیڈ)

انہوں نے جاپانی ڈاکٹر ٹیٹسو ناکامورا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے لائبریری ان کے نام سے منسوب کی ہے۔
ڈاکٹر ناکامورا نے افغانستان میں 40 سال گزارے اور افغانوں کے لیے امدادی پروجیکٹس پر کام کیا۔ 2019 میں مسلح افراد نے ان کو ننگرہار میں قتل کر دیا تھا۔
اس حوالے سے وہ کہتی ہیں ’ڈاکٹر ناکومورا ایک مشہور شخصیت تھے جنہوں نے اپنی تمام زندگی افغانوں کی خدمت میں گزاری، انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کم سے کم اتنا کر سکتی تھی کہ لائبریری کا نام ان کے نام پر رکھوں۔‘
اس لائبریری میں مرد صبح کے وقت آتے ہیں جبکہ خواتین کے لیے دوپہر کا وقت مخصوص ہے۔
اس دوران حمیرا نوروزی کو نہ صرف مخالفت کا سامنا کرنا پڑا بلکہ ان کو سکیورٹی چیلنجز کا بھی سامنا رہا، تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ حوصلہ نہیں ہاریں گی۔
حمیرا نوروزی کا کہنا ہے کہ اس لائبریری کے قائم کرنے کا مقصد خواتین کو آگاہی دینا ہے کہ ان کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔

شیئر:

متعلقہ خبریں