Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہباز شریف کی ضمانت: اختلافی نکات پر مبنی تفصیلی فیصلہ جاری

جسٹس اسجد جاوید گھرال نے جسٹس سرفراز ڈوگر کی تمام باتوں پر اپنے تحریری فیصلے میں تنقید کی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی ضمانت کے تحریری فیصلے میں لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ کے دونوں ججز نے ایک دوسرے پر تنقید کی ہے۔
اردو نیوز کو حاصل دوالگ الگ فیصلوں میں دونوں ججز نے الگ الگ رائے کا اظہار کیا ہے۔ 
خیال رہے کہ 14 اپریل کو شہباز شریف کی ضمانت لاہور ہائی کورٹ کے ایک دورکنی بینچ نے منظور کی تھی تاہم دو روز کے بعد صورت حال اس وقت بدل گئی جب فیصلہ کرنے والے ججز کے درمیان اختلافات سامنے آیا اور شہباز شریف رہا نہ ہوسکے۔ 
شہبازشریف کی ضانت کی درخواست کی سماعت لاہور ہائی کورٹ کے دورکنی بینچ نے کی جس کی سربراہی جسٹس سرفراز ڈوگر نے کی۔ جبکہ بینچ کے دوسرے جج جسٹس اسجد جاوید گھرال تھے۔ 
دونوں ججز نے اپنے الگ الگ فیصلے تحریر کیے  اور دونوں فیصلے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس قاسم علی خان کو بھجوا دیے گئے ہیں۔ ایک جج نے ضمانت منظور کی ہے جبکہ دوسرے جج نے ضمانت مسترد کرنے کا فیصلہ جاری کیا ہے۔ 
 بینچ کے سربراہ جسٹس سرفراز ڈوگر نے اپنا فیصلہ کچھ ایسے انداز میں تحریر کیا ہے کہ شروع میں ہی ’متفقہ ‘ طور پر ضمانت کیسے منظور کی گئی اس کا احوال بیان کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے ’دونوں اطراف کے دلائل سننے کے بعد عدالت میں متفقہ طورپر ضمانت منظور کی گئی لیکن جب مختصر فیصلہ دستخط کے لیے بینچ کے دوسرے فاضل جج جسٹس اسجد جاوید گھرال کی طرف بھیجا گیا تو انہوں نے اس وقت یہ بات بتائی کہ وہ اس فیصلے میں اپنا اختلافی نوٹ دینا چاہتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ اسی وجہ سے اس کیس کے دوالگ الگ فیصلے چیف جسٹس کو بھیجے جائیں گے اور اب وہ اس معاملے پر ریفری جج تعینات کریں گے۔ 
بینچ کے دوسرے جج جسٹس اسجد جاوید گھرال نے البتہ سرے سے ہی اس بات سے اختلاف کیا ہے کہ یہ ایک متفقہ فیصلہ تھا۔ اپنے تحریری فیصلے میں ان کا کہنا ہے ’میں  نہایت ادب سے گزارش کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ فاضل جج جسٹس سرفراز ڈوگر نے ضمانت دینے کا فیصلہ اکیلے کیا میں نے نہیں کیا۔ میں نے عدالت میں بھی ان سے اختلاف کیا تھا، اس کے بعد چیمبر میں بھی میرا موقف یہی تھا کہ یہ ضمانت نہیں بنتی۔ ساتھی جج جسٹس سرفراز ڈوگر نے یکطرفہ طور پر اپنے نائب  قاصد کے ذریعے عدالت میں شہباز شریف کی ضمانت کا فیصلہ سنایا۔‘
جسٹس اسجد جاوید گھرال نے جسٹس سرفراز ڈوگر کی تمام باتوں پر اپنے تحریری فیصلے میں تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ ’میں اسی وقت معاملہ چیف جسٹس کے نوٹس میں لے آیا۔ اور میرے پاس کسی قسم کا مختصر فیصلہ دستخط کے لیے بھیجا ہی نہیں گیا۔ جس کی بابت میرے فاضل دوست نے اپنے فیصلے میں لکھا۔‘
شہباز شریف کو ضمانت دینے والے جج جسٹس سرفراز ڈوگر نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ ’شہبازشریف کے وکیل کے دلائل ہیں کہ ان کے موکل کی عمر 70 سال کے قریب ہے اور کینسر کے مرض میں  بھی مبتلا رہے ہیں جبکہ ان کے خلاف جتنے بھی گواہان یا وعدہ معاف گواہان ابھی تک پیش کیے گئے ہیں ان میں سے ایک نے بھی اپنے بیان میں شہباز شریف پر کرپشن کا الزام نہیں لگایا۔‘
جبکہ نیب ریفرنس میں یہ الزامات عائد کیے گئے ہیں کہ شہباز شریف کے اثاثے آمدن سے زائد ہیں لیکن ان کی آمدن ہے کتنی اوران کی فیملی کی ملکیت چوہدری شوگر ملز کی آمدن کیا ہے ان بنیادی چیزوں کو ریفرنس کا حصہ نہیں بنایا گیا ہے۔

جسٹس اسجد جاوید گھرال نے اپنے فیصلے میں نیب کے وکلا کے دلائل پر زیادہ بھروسہ کیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

 یہ دلائل اس بات کے لئے کافی ہیں کہ شہباز شریف کی ضمانت کی درخواست نہ صرف سنی جائے بلکہ ان کی ضمانت منظور کی جائے کیونکہ اسی کیس میں دوسرے ملزم حمزہ شہباز کی ضمانت بھی منظور کی جا چکی ہے۔ 
تاہم انہوں نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ ٹرائل کورٹ میں جاری اصل مقدمے پر اس فیصلے کا کسی طرح بھی اثر نہیں ہونا چاہیے۔ 
دوسری جانب جسٹس اسجد جاوید گھرال نے اپنے فیصلے میں نیب کے وکلا کے دلائل پر زیادہ بھروسہ کیا ہے انہوں نے لکھا ’نیب نے جتنا بھی ریکارڈ عدالت میں پیش کیا اس سے یہ بات واضع ہے کہ منی لانڈرنگ اور ٹی ٹیز کے ذریعے جو پیسہ منظر عام پر آیا ہے اس پیسے کے ذرائع کے حوالے سے شہباز شریف اور ان کا خاندان نیب کو مطمئن نہیں کر سکا۔ اور مقدمہ بھی یہی ہے کہ شہباز شریف اپنے آمدن کے ذرائع ثابت نہیں کرسکا۔ یہ تمام ثبوت کافی سنجیدہ ہیں اور ان میں بظاہر جھول معلوم نہیں ہوتی۔‘
انہوں نے شہباز شریف کی بیماری کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ بات درست ہے  کہ ملزم کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا رہا ہے لیکن جب سے یہ کیس سنا جا رہا ہے ان کی صحت بالکل درست حالت میں ہے اور وہ جیل کے اندر بھی وہی ادویات کھارہے ہیں جو وہ جیل کے باہر کھائیں گے اور ان کے وکیل نے بھی اس دلیل کومکمل ضمانت کی وجہ نہیں بنایا ہے۔ لہذا شہباز شریف کی درخواست ضمانت ٹرائل کی اس سطح پر مسترد کی جاتی ہے۔ 
دونوں فیصلے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو بھیجے جا چکے ہیں اوراب وہ ان فیصلوں کو ایک ریفری جج کو بھیجیں گے جو ان دونوں میں سے کسی ایک جج کے فیصلے کی حمایت کرے گا یوں وہی فیصلہ نافذ االعمل تصور ہوگا جو ریفری جج لکھے گا۔

شیئر: