Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹی ایل پی دھرنا: ’ہم تقریباً محصور ہو کر رہ گئے ہیں‘

چوک یتیم خانہ سے سکیم موڑ تک سڑک بند ہے اور وہاں تنظیم کے کارکنان دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی) 
’میری بیٹی چھت سے گر گئی تھی۔ میں اور میری ساس اسے لے کر ہسپتال بھاگے تو باہر دھرنا ہو رہا تھا اور سڑکیں بند تھیں۔ میرے شوہر کراچی ہوتے ہیں۔ رکشہ نہیں ملا تو گلی سے ہم پیدل ہی نکلے تو ہمیں ایک ناکے پر روک لیا گیا۔ کچھ مذہبی لوگ تھے اور کچھ پولیس اہلکار۔‘
’میری ساس نے بڑے آرام سے ان سے بات کی کہ بچی کو چوٹ لگی ہے، ہمیں ہسپتال جانا ہے یہاں سے گزرنے دیں۔ انہوں نے ہمیں راستہ نہیں دیا اور نعرے لگا لگا کر کہتے رہیں کہ آپ بھی آئیں اور نعرے لگائیں۔ آپ بھی مسلمان ہونے کا حق ادا کریں ۔ مجھے رونا آ گیا اور میں نے وہاں چیخنا شروع کر دیا۔‘
یہ کہانی ہے، 29 سالہ اقرا اعوان کی، جو لاہور کی رہائشی ہیں اور ان کا گھر اس علاقے میں ہے جہاں کالعدم تحریک لبیک کا مرکزی دفتر ہے۔
چوک یتیم خانہ سے سکیم موڑ تک سڑک 12 اپریل سے بند ہے اور وہاں تنظیم کے کارکنان دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ 
14 اپریل سے اس علاقے میں مواصلات کا نظام مکمل طور پر بند ہے۔ نہ ہی موبائل سگنلز آ رہے ہیں اور نہ ہی انٹرنیٹ چل رہا ہے۔

ضلعی انتظامیہ نے تحریک لبیک کے مرکز کے قریبی علاقوں میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس بند کی ہوئی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ضلعی انتظامیہ نے تحریک لبیک کے مرکز سے پانچ کلومیٹر کے ریڈیئس میں موبائل سروس اور 10 کلومیٹر کے ریڈیئس میں انٹرنیٹ سروس معطل کر رکھی ہے۔ اس دھرنے کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے اس علاقے کے مکین ہیں۔
یہ ایک گنجان آباد علاقہ ہے جس کے ایک طرف اقبال ٹاون، ایک طرف سوڈیوال، سمن آباد اور ایک طرف اتحاد کالونی ہے۔ یہ لاہور کا مصروف ترین علاقہ بھی مانا جاتا ہے کیوںکہ لاہور سے دیگر شہروں کو جانے والی پبلک ٹرانسپورٹ کے بس اڈے بھی اسی علاقے میں ہیں۔
اس تمام علاقے کو لاہور کی مشہور سڑک ملتان روڈ ملاتی ہے اور دھرنا بھی اسی سڑک پر جاری ہے۔ 
اقرا اعوان کا گھر دھرنے کی جگہ سے محض پانچ سو میٹر کی دوری پر ہے۔ ان کی گلی کے تمام مکینوں کو باہر جانے کے لیے دھرنے سے گزر کر ہی جانا پڑتا ہے۔
انہوں نے 14 اپریل کو اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ’جب میں رونے لگ پڑی تو مجھے کہنے لگے کہ عورت کو یہ حق نہیں کہ وہ آواز اونچی کریں، گھر واپس جائیں۔‘
’میں نے اور بلند آواز سے رونا شروع کر دیا۔ مجھے لگ رہا تھا میری بیٹی مر جائے گی۔ میں نے ان کو واسطے دینے شروع کر دیے اور کہا کہ کون سا مذہب ہے جو لوگوں کو مارنے کا درس دیتا ہے۔‘

اقرا اعوان کے مطابق پولیس والوں نے بھی ان پر غصہ کیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے بتایا کہ شروع کے دنوں میں وہاں پولیس اہلکار بھی تھے۔ ایک پولیس والا آیا تو وہ بھی ہم پر غصہ ہونے لگا۔ میری ساس کو کہتا ہے کہ ’ماں جی آپ کو پتا نہیں باہر کیا حالات ہیں، بچی کو سنبھال کے نہیں رکھ سکتے تھے۔ کافی دیر ذلیل کرنے کےبعد انہوں نے ہمیں پیدل وہاں سے گزرنے دیا۔‘
اقرا اعوان کی پانچ سالہ بیٹی دو دن لاہور کے جناح ہسپتال میں زیر علاج رہیں۔ جس کے بعد وہ بیٹی سمیت اپنے گھر جانے کی بجائے اپنے والدین کے گھر چلی گئیں اور اب بھی وہی رہ رہی ہیں۔ 
اسی علاقے کے ایک اور رہائشی نبیل علی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’وہ تقریبا محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ میری موٹر سائیکل ہے اور بڑے بھائی کی گاڑی ہے۔ وہ 12 اپریل سے ہی گھر کھڑی ہے. ہم پیدل اپنی نوکریوں پر جانے کے لیے نکلتے ہیں اور اقبال ٹاون جا کر یا سمن آباد جا کر کوئی سواری ملتی ہے۔ پہلے دو دنوں میں تو گھر میں بالکل بند ہو کر رہ گئے تھے۔‘
انہوں نے اپنی مشکلات کے حوالے سے مزید بتایا کہ ’اس علاقے میں تمام دکانیں بند ہیں۔ سودا سلف لانے کے لیے بھی بہت دور پیدل جانا پڑتا ہے۔ اوپر سے رمضان ہے ہم تو پتا نہیں کس مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔‘

آنسو گیس کی وجہ سے بھی علاقہ مکینوں کو پریشانی ہوئی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

نبیل علی نے پولیس اور کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے کارکنوں میں جھڑپوں کے حوالے سے بتایا کہ ’اب تک دو مرتبہ دھرنے کرنے والوں اور پولیس کے مابین بڑی جھڑپیں ہوئی ہیں۔ جس میں آنسو گیس کا آزادانہ استعمال ہوا ہے اور اردگرد کی آبادی نے یہ مصیبت کاٹی ہے۔‘
’آنسو گیس ہمارے گھروں میں آ گئی اور بچوں کے چیخنے چلانے سے ایک قیامت برپا تھی۔ سانس لینا دوبھر تھا۔ ہمارا گھر تو پھر بھی سڑک سے تھوڑا دور ہے، لیکن جن کے گھر پاس ہیں وہ اس سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ہسپتال جانا مشکل ہو گیا ہے۔‘
انہیوں نے مزید کہا کہ ’اب تو یہی دعا کرتے ہیں کہ کوئی ایمرجنسی صورت حال نہ بنے، کیونکہ یہاں سے باہر نکلنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اوپر سے موبائل سروس بند ہونے سے ہمارا بیرونی دنیا سے رابطہ بالکل منقطع ہے۔ کئی لوگ تو اپنے گھر چھوڑ گئے ہیں۔ فائرنگ کی آواز سے بچے بڑے سب سہمے ہوئے ہیں۔ دھرنے سے ہر وقت آتی لاوڈ سپیکر کی آواز سے ہماری نیندں حرام ہو چکی ہیں۔‘
دوسری جانب کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے ترجمان ابن اسماعیل کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ وہ جس مقصد کے لیے یہاں بیٹھے ہیں۔ وہ لوگوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل سے کہیں بڑا مقصد ہے۔ جیسے ہی اس بڑے مقصد میں کوئی اہم کامیابی ہوگی تو یہ چھوٹے مسئلے بھی خود بخود حل ہوجائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم ان چھوٹے مسئلوں کو اس بڑے مقصد کے سامنے کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ لوگوں کے ساتھ اِکا دُکا واقعات ہوئے ہوں گے لیکن اب وہاں کے رہائشیوں کو آنے جانے کی آزادی ہے۔ تاہم ابھی اس مرکزی شاہراہ پر گاڑیاں اور موٹر سائیکل چلانے کی سہولت نہیں ہے۔‘

شیئر: