Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جارج فلوئیڈ کی ہلاکت: سفید فام امریکی پولیس آفیسر ڈیرک شوون مجرم قرار

فیصلے سنائے جانے کے بعد ہتھکڑی لگا کر حراست میں لے لیا گیا۔(فوٹو اے ایف پی)
امریکی ریاست منی سوٹا کے شہر منی ایپلس کے ایک سابق پولیس آفیسر ڈیرک شوون کو بارہ رکنی جیوری نے جارج فلوئیڈ کے قتل کا مجرم قرار دیا ہے۔ 
 جیوری نے سابق پولیس آفیسر کو قتل سمیت تینوں الزامات میں قصور وار قرار دیا ہے۔
مقدمے کی سماعت تین ہفتے جاری رہی۔ پیر کو استغاثہ اور دفاع نے اپنے دلائل مکمل کرلیے تھے۔ سزا کا فیصلہ اب دو ہفتے بعد سنایا جائے گا۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سفید فام سابق پولیس آفیسر ڈیرک شوون کو جو ضمانت پر رہا تھے فیصلہ سنائے جانے کے بعد ہتھکڑی لگا کر حراست میں لے لیا گیا۔
جیوری کے فیصلے کے فوری بعد جارج فلوئیڈ کے حامی عدالت کے باہر خوشی کا اظہار کرنے لگے۔
 جارج فلوئیڈ کے مقدمہ قتل کے فیصلے سے پہلے سیکیورٹی کے انتظامات انتہائی سخت کیے گئے۔ منی ایپلس شہر میں تین ہزار نیشنل گارڈ طلب کر لیے گئے۔ پولیس کی بھاری نفری بھی تعینات رہی۔
یاد رہے کہ گذشتہ سال 25 مئی کو منی ایپلس میں ایک سیاہ فام امریکی جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے بعد احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے تھے۔
جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کیسے ہوئی
 سیاہ فام امریکی جارج فلوئیڈ پر الزام تھا کہ انہوں نے ایک گراسری سٹور پر دو دفعہ 20 ڈالر کے جعلی بل کے ذریعے خریداری کرنے کی کوشش کی۔
جارج فلوئیڈ کو گرفتار کرنے والے پولیس اہلکار نے انہیں زمین پر لیٹا کر ان کی گردن پر گھٹنا رکھ دیا جس کی وجہ سے مبینہ طور پر ان کی موت واقع ہوئی۔
پولیس کی حراست میں سیاہ فام جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کی ویڈیو وائرل ہوگئی تھی۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا تھا کہ ہاتھ پیچھے بندھے جارج فلوئیڈ زمین پر لیٹے ہوئے ہیں اور ان کی گردن پر پولیس اہلکار نے گھٹنا رکھا ہوا ہے۔ ویڈیو میں جارج فلوئیڈ کہہ رہے ہیں کہ ان کو سانس لینے میں مشکل ہو رہی ہے۔

واقعہ نے لوگوں کو احتجاج کے لیے باہر نکلنے پر مجبور کر دیا تھا۔( فوٹو اے ایف پی)

 ڈیرک شوون جارج فلوئیڈ کو اپنے گھٹنے تلے دبا کر ہلاک کرنے سے قبل بھی طاقت کے بہیمانہ استعمال کا ریکارڈ رکھتے تھے۔
اس واقعے کو امریکہ میں سیاہ فام شہریوں کے ساتھ تعصب اور امتیازی سلوک کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
جارج فلوئیڈ کی پولیس حراست میں ہلاکت کے بعد ریاست منی سوٹا کے شہر منی ایپلس میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے اور پولیس کی مقامی لوگوں کی ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔ شہر میں جلاؤ گھیراؤ کے واقعات بھی پیش آئے تھے۔
 کئی برس بعد امریکہ میں اس طرح کا احتجاج دیکھنے میں آیا ہے جو مینیسوٹا سے نیویارک اور لاس اینجلس تک پھیل گیا تھا۔

جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے بعد احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے تھے۔(فوٹو اے ایف پی)

 کئی دہائیوں بعد امریکہ میں نسل پرستی کے خلاف بڑی تعداد میں لوگوں کو احتجاج کے لیے باہر نکلنے پر مجبور کر دیا تھا۔
نسل پرستی ’قوم کی روح پر داغ‘
اے ایف پی کے مطابق سابق پولیس آفیسر ڈیرک شوون کو جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کا مجرم قرار دیے جانے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں نظام کو متاثر کرنے والی نسل پرستی کو ’قوم کی روح پر داغ‘ قرار دیا۔
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے جس میں سابق امریکی پولیس آفیسر کو جارج فلوئیڈ کے قتل کا مجرم قرار دیا گیا۔
بورس جانسن نے ٹویٹ کیا ’جارج فلوئیڈ کی موت سے دھچکا لگا تھا ، فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ آج میرے جذبات جارج فلوئیڈ کے اہل خانہ اور دوستوں کی طرح ہیں‘۔
سابق امریکی صدر باراک اوباما اور ان کی اہلیہ نے مقدمے کے فیصلے کی تعریف کی تاہم زور دیا کہ ’ہمیں انصاف کے حصول کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے‘۔
 

شیئر: