Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جازان کے ریسٹورنٹ میں روبوٹس کے ذریعے گاہکوں کی خدمت

کورونا وبا میں احتیاط کے طور پرروبوٹ نظام کا آغاز کیا گیا ہے۔ (فوٹو عرب نیوز)
ہم سب ایسے ریستوران میں جا چکے ہیں جہاں آپ کھانے کا آرڈر دیں تو ویٹر مرغ بریانی کی بجائے پاستا سلاد لے کر پہنچ جائے۔
عرب نیوز کے مطابق سعودی عرب کے علاقے جازان کے روبوٹ ریسٹورنٹ میں اس طرح کا کوئی مسئلہ نہیں۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہوتا ہے  یہاں کا ویٹر کوئی ایسی غلطی کرنے والا انسان نہیں بلکہ بہترین مصنوعی ذہانت سے چلنے والے روبوٹ ہیں۔
یہاں ایک سٹی سینٹر ریسٹورنٹ میں خدمات انجام دینے والے ریستوران میں  گاہکوں کو ایشیائی کھانوں کی ٹرے پہنچانے کے لئے 6 روبوٹ اسسٹنٹ کام کر رہے ہیں۔

ریسٹورنٹ میں روبوٹ نظام  سعودی خاتون انجینئر ریحام عمرنے تیار کیا ہے۔(فوٹو ٹوئٹر)

دراصل کورونا وائرس کی وبا کے تناظر میں انسانی رابطے کو کم کرنے کے لئے احتیاط کے طور پر اس جدید نظام کا آغاز کیا گیا تھا۔
جس کے بعد سے اب یہاں آنے والے گاہکوں میں یہ روبوٹ سسٹم بے حد مقبول ہوگیا ہے۔
یہ سارا نظام  سعودی خاتون انجینئر ریحام عمرنے تیار کیا ہے۔ اس نظام کے لیے ریستوران کے اندر  باقاعدہ  سینسرز لگائے گئے ہیں۔
ان سینسرز کی بدولت یہ روبوٹ ریستوران میں حرکت کر سکتے ہیں اور وہاں موجود گاہکوں تک کھانا پہنچا سکتے ہیں۔
انجینئر ریحام عمرنے عرب نیوز کو بتایا ہے کہ یہ روبوٹس اپنے قریب کھڑی ہوئی کسی بھی چیز کے وجود کو محسوس کر سکتے ہیں چنانچہ وہ چلتے چلتے رک جاتے ہیں یا اسی مناسبت سے اپنا راستہ بھی بدل سکتے ہیں۔
روبورٹ کے اندر یہ صلاحیت بھی سینسرز کی وجہ سے ہی ہے۔
ہر روبوٹ کی میموری میں ریستوران کا اندرونی نقشہ رکھا گیا ہے جبکہ یہاں موجود ہر میز کا  فاصلہ اورمقام بھی روبوٹس کے اندر پروگرامنگ کے ذریعے  موجود ہے۔

یہاں آنے والے گاہکوں میں یہ روبوٹ سسٹم بے حد مقبول ہوگیا ہے۔(فوٹو سوشل میڈیا)

جب روبوٹ مطلوبہ میز پر پہنچ جاتا ہے تو گاہک آرڈر کیا ہوا کھانا اٹھا سکتے ہیں اور روبوٹ کو واپس جانے کا حکم دے سکتے ہیں۔
ریحام عمر نے  مزید بتایا کہ یہ خیال دوسرے ممالک کے تجربات کی روشنی میں تیار کردہ نقشے نیزغذائی صنعت کے لئے سعودی حکومت کے تعاون سے روبہ عمل لایا گیا ہے۔
ریحام عمر نے واضح کیا کہ ہمارا منصوبہ جتنا چھوٹا ہے، ہمیں اس پر فخر ہے۔ صارفین نہ صرف روبوٹ میں دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں بلکہ اس خیال سے بھی متاثر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ثقافتیں بدل رہی ہیں ۔ لوگ ایسی نئی ٹیکنالوجیز دریافت کرنے کے خواہاں ہیں جو ان کے معیار زندگی کو بہتر بناسکے۔
 

شیئر: