Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’لڑکی سسرال میں رہ کر گھر سنبھال سکتی ہے تو لڑکا کیوں نہیں؟‘

ہم ٹی وی کے ڈرامے ’چپکے چپکے‘ نے گھر داماد کے حوالے سے اس دقیانوسی سوچ پر بحث چھیڑ دی ہے(فوٹو: سکرین گریب)
’بیٹی کے گھر کا پانی نہیں پینا
’بیٹی کے گھر کا کھانا نہیں کھانا
’داماد سسرال میں زیادہ دیر رہے یہ مناسب نہیں‘
کہنے کو تو وقت بہت حد تک بدل گیا ہے لیکن آج بھی اس طرح کی سوچ رکھنے والے افراد ہمارے معاشرے میں نہ صرف پائے جاتے ہیں بلکہ نسل در نسل یہ سوچ پروان بھی چڑھ رہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اکثر والدین اپنی بیٹی کے سسرال بس کھڑے کھڑے ہی جاتے ہیں اور بغیر کھائے پیے واپسی کی راہ پکڑ لیتے ہیں، ایسے معاشرے میں اگر کوئی لڑکا گھر داماد بن جائے تو سمجھ لیجیے کہ لوگوں کے طعنے پوری زندگی اس کا پیچھا کریں گے۔
اسی لیے یہاں بہت کم ہی ایسا دیکھنے کو ملتا ہے کہ کوئی مرد اپنے سسرال میں گھر داماد بن کے رہے۔
رمضان میں نشر ہونے والے ہم ٹی وی کے ڈرامے ’چپکے چپکے‘ نے گھر داماد کے حوالے سے اس دقیانوسی سوچ پر بحث چھیڑ دی ہے۔ کہانی کار وہی ہیں جنہوں نے سنو چندہ لکھا اس بار ان کے قلم سے چپکے چپکے نکلا ہے۔
ہلکے پھلکے مزاح پر مبنی ڈرامہ سیریل ’چپکے چپکے‘ کو کافی پسند تو کیا جا رہا ہے لیکن اس کے ایک کردار نے لوگوں کو تبصروں کا موقع بھی دے دیا ہے۔
یہ کردار ہے ’مسکین علی‘ کا جو اپنے سسرال میں گھر داماد بن کر رہ رہے ہیں اور گھر کا کام کاج حتی کہ کھانا پکاتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔
اس کردار کو مشہور اداکار علی سفینہ نبھا رہے ہیں۔ ڈرامے میں ان کی اہلیہ ہر وقت ان پر طنز کے نشتر برساتی رہتی ہیں جبکہ سسرال والے بھی انہیں طعنے دے کر یہ احساس دلاتے ہیں کہ جیسے وہ اس خاندان پر بوجھ ہیں۔

علی سفینہ کے بقول ’ایک طرف لوگ کہتے ہیں کہ عورتوں کا ہاتھ بٹائیں دوسری طرف کوئی ایسا کرے تو تنقید بھی ہوتی ہے‘ (فوٹو: سکرین گریب)

علی سفینہ کے اس کردار پر جہاں روایتی سوچ کے حامل افراد تنقید کر رہے ہیں کہ ’ہمارے معاشرے میں ایسا کب ہوتا ہے، گھر داماد ہونا تو بہت معیوب بات ہے‘لیکن وہیں کچھ ایسے بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ جب لڑکی اپنا گھر بار چھوڑ کر اپنے شوہر کے گھر رہ سکتی ہے اور پورا گھر سنبھال سکتی ہے تو ایک مرد کے ایسا کرنے پر بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
سوشل میڈیا پر جب طرح طرح کے تبصروں کا بازار گرم ہوا تو ہم نے علی سفینہ سے رابطہ کر کے اس کردار کے حوالے سے ان کے خیالات جاننے کی کوشش کی۔

اس سوال کے جواب میں کہ انہوں نے ’مسکین بھائی‘ کے کردار کا انتخاب کیوں کیا،علی سفینہ نے بتایا کہ ’ایک کہانی لکھنے اور اپروو ہونے کے بعد جب آرٹسٹ کے پاس پہنچتی ہے تو آرٹسٹ کے پاس صرف اتنا مارجن ہوتا ہے کہ وہ اس کو قبول کرلے یا رد کردے۔ میں نے جتنے بھی کردار کیے ہیں وہ روٹین سے ہٹ کر کیے ہیں۔‘
علی سفینہ نے اپنے کردار کے بارے میں بتایا کہ ’گھر داماد بنا ضرور ہوں لیکن کردار کی حقیقت بھی تو جانیں کہ مسکین علی گھر داماد آخر کیوں بنا ہے؟ بھئی اس کی بیوی سمجھتی ہے کہ اس کے بہن بھائیوں کا خیال اس سے زیادہ کوئی نہیں رکھ سکتا۔ آج کے زمانے میں دیکھیں تو بہت ساری عورتیں مردوں پر حاوی ہوتی ہیں، ان کے شوہر بیویوں کے ساتھ گھر کے کاموں میں حصہ لیتے ہیں مسئلہ تو تب مسکین علی کے کردار سے ہونا چاہیے تھا کہ وہ سسرال میں رہ بھی رہا ہوتا اور ہاتھ بھی نہ بٹاتا بس بیکار بیٹھا رہتا۔‘
علی سفینہ کے بقول ’ایک طرف لوگ کہتے ہیں کہ عورتوں کا ہاتھ بٹائیں اس کے خاندان والوں کا خیال رکھیں دوسری طرف کوئی ایسا کرے تو تنقید بھی ہوتی ہے۔ اب مسکین علی اپنی بیوی اور اس کے خاندان والوں کی خوشی کے لیے ہر کام کررہا ہے چاہے وہ اس کی بات کو اہمیت نہیں دی جاتی  لیکن وہ تو داماد ہونے کا حق ادا کر رہا ہے نا۔‘

علی سفینہ کہتے ہیں کہ وہ حقیقی زندگی میں اپنی بیوی کے لیے کھانا بھی بنائیں گے ان کی ہر معاملے میں مدد بھی کریں گے (فوٹو: علی سفینہ انسٹاگرام)

انہوں نے کہا کہ مسکین علی نے لوگوں کے دِلوں میں جگہ بنائی ہی اسی لیے ہے کیونکہ وہ پیار کرنے والا انسان ہے۔ اپنی بیوی اور اس کے خاندان کو اہمیت دیتا ہے اور کوئی بھی بات دل پر نہیں لیتا۔
علی کہتے ہیں کہ وہ حقیقی زندگی میں اپنی بیوی کے لیے کھانا بھی بنائیں گے ان کی ہر معاملے میں مدد بھی کریں گے۔’آج سے دو دہائیاں پہلے تک لوگ ایسی باتوں کو معیوب سمجھتے تھے لیکن اب وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کی سوچ بھی تبدیل ہوئی ہے لیکن یقینا ابھی بھی ایسے لوگ ہیں جو ایسی باتوں کو برا سمجھتے ہیں۔
ڈرامے کی مقولیت کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ’اگر اس ڈرامے کو لوگ دیکھ نہ رہے ہوتے تو یوٹیوب پہ لوگوں کا اتنا ریسپانس نہ ملتا۔‘
علی سفینہ کہتے ہیں کہ ’داد آرٹسٹ کی کل کمائی ہوتی ہے۔ پوری دنیا میں ویسے ہی بہت ڈپریشن پھیلا ہوا ہے ایسے میں اگر ان کی اداکاری کی وجہ سے کسی کے چہرے پر مسکراہٹ آجائے تو اس سے بڑھ کر ایک آرٹسٹ کی اور کیا کامیابی ہو سکتی ہے۔‘

شیئر: