Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا آج کا پاکستانی ڈرامہ قابل اعتراض ہے؟

ڈراموں پر پیمرا کی جانب سے پابندی لگانے کے بعد لوگ ان ہی ڈراموں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ فوٹو: قلم کہانی
سوشل میڈیا آج لوگوں کے پاس آزادی اظہار کا سب سے موثر پلیٹ فارم ہے، اس فورم پہ ہر کوئی ہر معاملے پر تبصرہ کرنے بیٹھ جاتا ہے چاہے اس کا تعلق اس معاملے سے ہے یا نہیں اور شاید اسی وجہ سے اب جس چیز پر سب سے زیادہ تنقید ہو رہی ہو اس پر متعلقہ ادارے حرکت میں آ جاتے ہیں۔
ٹی وی کی بات کریں تو اس پر نشر ہونے والے ڈرامے ہر گھر میں دیکھے جاتے ہیں اور تصور کیا جاتا ہے کہ اس پر وہی کچھ دکھایا جائے گا جو ہمارے معاشرے اور مذہبی اقدار کے مطابق ہوگا لیکن اگر کہیں کبھی کبھار واقعات اور وجوہات کی بنا پر کچھ روٹین سے ہٹ کر دکھایا جائے تو شور و غوغا مچ جاتا ہے، پیمرا کی طرف سے نوٹسسز جاری ہوتے ہیں۔
اب جیسے ماضی قریب میں ’ڈر سی جاتی ہے صلہ‘ اور ’جلن‘ جیسے ڈراموں پر پیمرا حرکت میں آیا، ’جلن‘ پر تو پابندی لگا دی گئی جس کو عدالت نے ہٹایا اسی طرح سے ’اب دل نہ امید تو نہیں‘ ڈرامے کو لے کر پیمرا حرکت میں آیا ہوا ہے۔
پیمرا کا کہنا ہے کہ اس میں جو چیزیں دکھائی جا رہی ہیں وہ ہمارے معاشرے کی عکاسی نہیں کرتیں۔ اب کیا چیز ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتی ہے کیا نہیں اس کا فیصلہ اب کون کرے گا؟ اور کیا ہمارے معاشرے میں ہیومین ٹریفکنگ نہیں ہوتی؟
ہیومن ٹریفکنگ تو ایک گلوبل ایشو ہے ہماری سوسائٹی میں بد قسمتی سے یہ کام ہوتا ہے لڑکیاں بچے وغیرہ بکتے ہیں اور بار بار بکتے ہیں، بچوں کے استحصال سے کس کو انکار ہے؟ اب یہ تو نہیں ہو سکتا نا کہ ’جھاڑ پونچھ کر پردہ لٹکا کر گھر کی گندگی کوچھپا دیا جائے، ایسا کرنا گھر سے بے وفائی ہے محبت نہیں۔‘
اگر گھر سے محبت ہو تو اسے صاف ستھرا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اسی طرح سے اگر کوئی ڈرامہ معاشرتی حقیقتوں سے پردہ اٹھاتا ہے تو اس پر بات ہونی چاہیے اس کے حل کی طرف جانا چاہیے نہ کہ اس پر غیر اخلاقی ہونے کا ٹھپہ لگا دیا جائے۔
حقیقت سے آنکھیں موندھنے کا مطلب ہے کہ ہم آئینے کی دھول کو صاف نہیں کرنا چاہتے۔ ہم کبوتر کی طرح آخر کب تک آنکھیں بند رکھیں گے ہمارے ہی لوگ نیٹ فلیکس پر دنیا بھر کی مختلف موضوعات پرمبنی کہانیاں اسی لیے دیکھتے ہیں کیونکہ ہم دکھانے سے گریز کرتے ہیں اگر کوئی ایسی کوشش کرے تو اس کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے پیمرا میدان میں آجاتا ہے۔
’دلِ ناامید تو نہیں‘ ہو، ’جلن‘ ہو یا ’ڈر سی جاتی ہے صلہ‘ و دیگر ان پر جب پیمرا نے پابندی لگائی توجو لوگ نہیں بھی دیکھ رہے تھے انہوں نے بھی دیکھا۔
ہوتا یہی ہے کہ جب آپ کسی چیز کو غیر اخلاقی کہہ کر پابندی لگاتے ہیں لوگ اسے پہلے سے بھی زیادہ دیکھتے اور تبصرہ کرتے ہیں۔ اس سے تو بلکہ چینل، رائٹر اور ڈائریکٹر کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے، ٹھیک ہے پھر آپ لگاتے رہیں پابندیاں۔
پیمرا کا اپنا ایک مائنڈ سیٹ ہے جو تبدیل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا بھئی آپ پابندی لگائیں گے تو کیا فرق پڑے گا؟ اب یہاں ڈراموں کی کہانیوں کو غیر اخلاقی کہہ کر نوٹس بھیجنے یا پابندیاں لگانے کے اقدام پر ہاتھ ہولہ رکھنے کی بحث کرنے کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ اس وقت ٹی وی پر دکھائے جانے والے ڈرامے یا کہانیاں بہت ہی معیاری ہیں۔ آج ڈرامے کی شکل وہ نہیں رہ گئی جو کبھی ہوا کرتے تھی یا جو ہونی چاہیے تھی۔

’ڈر سی جاتی ہے صلہ‘ و دیگر پر جب پیمرا نے پابندی لگائی تو جو لوگ نہیں بھی دیکھ رہے تھے انہوں نے بھی ڈرامہ دیکھا۔ فوٹو: سکرین گریب

سال 2000 کے بعد ڈرامے کی شکل کو بدلنے کا سلسلہ شروع ہوا کبھی سٹار پلس سمیٹ کر ڈراموں کی کہانیوں کا حصہ بنایا گیا تو کہیں ساس بہو کی لڑائیوں کی نذر کر دیا گیا۔ یہ کوئی تبدیلی راتوں رات نہیں آئی اس کے لیے سال ہا سال لگے ہیں اور لوگوں نے اس تبدیلی کو آہستہ آہستہ قبول کیا۔
ڈرامے کی جو موجودہ شکل ہے لوگ اس کو دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ ذرا سی بھی مختلف اور حقیقی ایشوز پر مبنی کہانیاں آتی ہیں تو چِلانا شروع کر دیا جاتا ہے کہ بھئی یہ کیا دکھایا جا رہا ہے لوگوں کی تنقید اور سوشل میڈیا پر ہونے والے تبصرے پیمرا کو بھی مجبور کردیتے ہیں نوٹس لینے پر۔
آج کا ڈرامہ ڈرامہ نہیں کوئی کمرشل چیز زیادہ لگنے لگ گیا ہے جس کا مقصد صرف لان، ٹوتھ پیسٹ اور موبائل بیچنا رہ گیا ہے۔ ’دل نا امید تو نہیں‘ کی کہانی معاشرتی حقیقتوں سے پردہ اٹھاتی ہے اور ہمارے رویوں پر بھی سوال اٹھاتی ہے اس وجہ سے یہ غیر اخلاقی ہے؟ اور کہانی وہی ہے جس کو دیکھنے کے بعد لوگ سوچنے پر مجبور ہوجائیں ان کے ذہن میں مختلف سوال جنم لیں، سوسائٹی، مذہب یا کلچر کے خلاف کوئی مواد ہو تو اس پر پابندی لگانے کا کہا جا سکتا ہے ورنہ نہیں، ورنہ تو زیادہ سے زیادہ اس کو ٹھیک کرنے کو کہا جا سکتا ہے پابندی تو آخری حد تصور کی جاتی ہے جو ایکدم سے کیسے لگائی جاسکتی ہے۔
شکر کیا جانا چاہیے کہ ڈرامہ ساس بہو سے نکل کر مختلف موضوعات کا احاطہ کرنے لگا ہے تو اس چیز کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے ایک دوسرے پر الزام دھرنے سے ڈرامے کو نقصان ہو گا۔
موضوع کی مناسبت سے اصغر ندیم سید کا کہنا ہے کہ گذشتہ 15 سال سے جو کہانیاں دکھائی جا رہی ہیں وہ یقین کرنے کے قابل نہیں ہیں سوسائٹی کے چھوٹے سے سیگمنٹ میں ہونے والے واقعات کو بڑا کرکے پیش نہیں کیا جا سکتا میں تو یہی کہوں گا کہ دماغی مریض کو سوسائٹی کا نمائندہ نہیں بنایا جا سکتا۔

’دل نا امید تو نہیں‘ کی کہانی معاشرتی حقیقتوں سے پردہ اٹھاتی ہے اور ہمارے رویوں پر بھی سوال اٹھاتی ہے۔ فوٹو: سکرین گریب

مصطفیٰ آفریدی جنہوں نے سنگ مرمر جیسے شاہکار ڈرامے لکھے وہ کہتے ہیں کہ پابندیاں لگانا آڈینز کی حق تلفی ہے کونسی کہانی اچھی ہے کونسی بری یہ فیصلہ انہیں ہی کرنے دینا چاہیے، دیکھنے والے بےوقوف نہیں ہیں۔
اب رائٹر خود سے تو کچھ نہیں گھڑ لیتا نا؟ آخر کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی واقعہ تو ایسا ہوا ہوتا ہے جس کو بنیاد بنا کر وہ کہانی لکھتا ہے اور کہانی لکھنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایسا بھی ہوا تھا اور آئندہ نہیں ہونا چاہیے۔ چینل کو ذمہ دار ٹھہرانا یا رائٹر کو ذمہ دار ٹھہرانا مناسب نہیں، خود کو ذمہ داریوں کے خانوں میں بند نہ کریں، یہ جو ذمہ داریوں کی زنجیریں گلے میں ہم نے ڈال رکھی ہیں انہی کی وجہ سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ پیمرا نے بھی تو کچھ کرنا ہے نا۔ وہ ایکشن لیتے رہیں گے کہانیاں سنانے والے سناتے رہیں گے، رائٹر کی سال چھ ماہ کی محنت کو پیمرا کی چھ لائنوں کا لیٹر ختم کر دیتا ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
حسینہ معین کہتی ہیں کہ بری سے بری بات کو بھی سلیقے سے کہا جا سکتا ہے دکھایا جا سکتا ہے بس یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ٹی وی کو ہر گھر میں دیکھا جاتا ہے، بچے بڑے بوڑھے ہر کوئی ڈرامے دیکھتا ہے اور ٹی وی پر دکھائی جانے والی چیز کا اثر دیرپا ہوتا ہے۔ لوگ جو دیکھتے ہیں ویسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں مجھے یاد ہے کہ ہمارے زمانے میں ایک ڈرامے کا ایک سین تھا کہ لڑکی شادی کے لیے نہیں مانتی تو لڑکا اس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیتا ہے اس کو دیکھنے کے بعد بہت سارے وایسے واقعات رونما ہوئے تھے بس ایسی چیزوں کا خیال ضرور رکھا جانا چاہیے معاشرے کی حقیقتوں کو طریقے سے دکھایا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا ’چینلز کا کام تو اب جیسے صرف پراڈکٹ بیچنا ہی رہ گیا انہیں بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ باقی پیمرا کو بھی سوچ سمجھ کر حرکت میں آنا چاہیے۔ آج کئی ایسے ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں جن میں سسر بہو پر گندی نظر رکھے ہوئے ہے، دیور بھابھی پر نظر رکھے ہوئے ہے اب ایسی کہانیاں دیکھ کر بچیاں تو دل ہی دل ہی میں سسر دیور اور جیٹھ سے یقیناً ڈریں گی۔ رائٹر کا کام سوسائٹی کو ایجوکیٹ کرنا، انفارمیشن دینا، اینٹرٹین کرنا ہے، لیکن حدود میں رہ کر۔ مجھے تو کبھی کبھی لگتا ہے کہ ڈرامہ آرٹ کی فارم سے نکل کر نوٹنکی بن چکا ہے۔‘

 رائٹر فصیح باری خان کہتے ہیں کہ میں ’دلِ نا امید تو نہیں‘ دیکھ رہا ہوں اس میں ایسی کوئی بات نہیں کہ جس پر پابندی لگائی جائے۔ فوٹو: سکرین گریب

بی گل جن کا حال ہی میں لکھا ہوا ڈرامہ ’رقیب سے‘ بہت پسند کیا جا رہا ہے وہ کہتی ہیں کہ مجھے میرے کافی ڈراموں پر پیمرا کی جانب سے نوٹسسز موصول ہوتے رہے میں وضاحت لکھ کر بھیجتی رہی بس ایسا ہی ہوتا ہے کہ پیمرا نوٹس بھیجتا ہے رائٹر یا متعلقہ چینل وضاحت لکھ کر بھیجتا رہتا ہے اور اس بیچ ڈرامہ چلتا رہا ہے۔
’پیمرا کے نوٹسسز کو میں سنجیدگی سے اس لیے نہیں لیتی کیوں کہ کارروائی تو ہوتی کوئی نہیں ہے بس نوٹسسز ملتے رہتے ہیں، نوٹس بھیجنے سے رائٹر کی حوصلہ شکنی نہیں حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ جتنا آپ اس کو دبانے کی کوشش کریں گے اتنا ہی وہ جرات سے لکھے گا۔ آج کا ڈرامہ اس لیے بھی معیاری نہیں ہے کیونکہ چینلز ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ چینلز کو دیکھنا چاہیے کہ ہم جو کونٹینٹ چلانے جا رہے ہیں اس کا معیار کیا ہے صرف ساس بہوﺅں کے گرد گھومتی کہانیاں دکھا کر ہم دنیا کو کیا دکھانا چاہتے ہیں؟ کہ ہماری عورتیں ایسی ہیں ہماری عورتیں بالکل ایسی نہیں ہیں وہ بہت ہی سلجھی ہوئی اور دانشمند ہیں جو حالات کا مقابلہ کرنا جانتی ہیں۔‘
’قدوسی صاحب کی بیوہ‘ اور حال ہی میں اختتام پذیر ہونے والے ڈرامہ سیریل ’گھسی پٹی محبت‘ کے رائٹر فصیح باری خان کہتے ہیں کہ میں پہلی قسط سے ’دلِ نا امید تو نہیں‘ دیکھ رہا ہوں اس میں ایسی کوئی بات نہیں کہ جس پر پابندی لگائی جائے اس میں ایشوز کو سنجیدگی سے دکھایا جا رہا ہے ایسے موضوعاتی ڈرامے کو سراہنے کے بجائے اس پر پیمرا کی جانب سے خفگی کا اظہار سمجھ سے باہر ہے۔
انہوں کہا کہ ایسے بہت سارے ڈرامے ہیں جن کی کہانیوں کے نہ سر ہیں نا پیر لیکن وہ چل رہے ہیں اور چلتے ہی جا رہے ہیں۔
’پیمرا اور ہماری سوسائٹی کب یہ سمجھے گی کہ رائٹر کو تحریر کی آزادی دینا بہت ضروری ہے۔ جہاں تک چینلز کی بات ہے تو میں تمام چینلز کو غیر ذمہ دار اس لیے نہیں کہوں گا کیونکہ کچھ چینل ابھی بھی ایسے ہیں جو روٹین سے ہٹ کر کونٹینٹ دکھانے کی کم از کم جرات تو کر رہے ہیں۔‘

شیئر: