Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ترکی سعودی عرب کے ساتھ ’بہتر تعلقات استوار کرنے کا خواہاں‘

ابراہم کالن کا کہنا تھا ’ان کی ایک عدالت ہے جہاں ٹرائل ہوا اور ایک فیصلہ ہوا جس کا ہم احترام کرتے ہیں۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ترک صدارتی ترجمان اور صدر کے مشیر ابراہیم کالن نے کہا ہے کہ’ ترکی سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کرنے کا خواہاں ہے‘۔
عرب نیوز کے مطابق ترک صدر کے ترجمان کا برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ انٹرویو میں کہنا تھا کہ ’امید ہے کہ ترک مصنوعات کے بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لیا جائے گا۔‘
’ہم سعودی عرب کے ساتھ زیادہ مثبت ایجنڈے کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے راستے نکالیں گے۔‘

 

خیال رہے سعودی بزنس مینوں کی جانب سے ترک مصنوعات کے غیراعلانیہ بائیکاٹ کے بعد ترکی اور سعودی عرب کے درمیان گزشتہ سال کے دوران دوطرفہ تجارت کے حجم میں 98 فیصد کمی ہوئی ہے۔
کالن کا مزید کہنا تھا کہ’ ترک ایوان صدر سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر سعودی عرب میں آٹھ افراد کے ٹرائل اور سزاؤں کا خیر مقدم کرتا ہے‘۔
ابراہم کالن کا کہنا تھا ’ان کی ایک عدالت ہے جہاں ٹرائل ہوا اور ایک فیصلہ ہوا جس کا ہم احترام کرتے ہیں۔‘
ترک صدارتی ترجمان کا روئٹرز کے ساتھ انٹرویو ایک ایسے وقت ہوا جب اگلے ماہ ترکی اور مصر کے درمیان بات چیت ہونے جارہی ہے اور انقرہ کو امید ہے کہ اس بات چیت کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون بحال ہوگا۔
ترکی اور مصر کے درمیان تعلقات 2013 میں اس وقت خراب ہوئے جب مصر کی فوج نے اخوان سے تعلق رکھنے والے صدر مرسی کو اقتدار سے ہٹا دیا جو کہ ترکی کے قریبی حلیف تھے۔

انقرہ نے گزشتہ مہینے مصری اپوزیشن سے وابستہ ٹیلی ویژن چینلوں کو کہا تھا کہ وہ صدر سیسی پر تنقید میں اعتدال کا مظاہری کریں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم حالیہ دنوں کے اندر ترکی نے مصر اور دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کو کوشش شروع کر دی ہے۔ انقرہ ان ممالک کے ساتھ اختلافات کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو کہ اسے خطے میں تنہائی سے دوچار کرنے کا سبب بنے ہیں۔
دونوں ممالک کے انٹیلیجنس چیفس اور وزرائے خارجہ آپس میں رابطے میں ہیں اور کالن کا کہنا ہے کہ ترک سفارتی مشن مئی کے شروع میں مصر کا دورہ کرے گا۔
’برسرزمین حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے میرا خیال ہے کہ دونوں ممالک اور خطے کے مفاد میں ہیں کہ تعلقات کو معمول پر لایا جائے۔‘
مصر کی جانب خیرسگالی کے طور پر انقرہ نے گزشتہ مہینے ملک میں موجود مصری اپوزیشن سے وابستہ ٹیلی ویژن چینلوں کو کہا تھا کہ وہ مصری صدر سیسی پر تنقید میں اعتدال کا مظاہری کریں۔
مصر نے انقرہ کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا تھا لیکن ترکی کی جانب سے تعلقات بہتر کرنے کی خواہش کا مثبت جواب دینے میں مختاط رویہ اپنایا تھا۔

صدر اردوغان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ‘ہمارا لیبیا کی حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ ہے اور یہ ابھی تک برقرار ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

ابراہیم کالن کا کہنا تھا کہ مصر کے ساتھ مصالحت کا یقیناً لیبیا کی سکیورٹی کی صورتحال پر اچھا اثر ہوگا کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ مصر کی لیبیا کے ساتھ طویل سرحد ہے اور کبھی کبھار اس پر مصر کو سکیورٹی خطرات کا سامنا بھی رہتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ترکی لیبیا کے مسئلے پر مصر اور دوسرے ممالک کے ساتھ بات چیت کرے گا۔ خیال رہے گزشتہ ماہ ہی اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ عبوری حکومت لیبیا میں عنان اقتدار سنبھال لیا ہے۔
تاہم اقوام متحدہ کی جانب سے تمام غیرملکی افواج کی لیبیا سے انخلا کی اپیل کے باوجود ابراہیم کالن نے عندیہ دیا کہ ترکی کے ملٹری آفیسر اور انقرہ کے اتحادی شامی جنگجو لیبیا میں موجود رہیں گے۔
صدر اردوغان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ‘ہمارا لیبیا کی حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ ہے اور یہ ابھی تک برقرار ہے۔‘

شیئر: