Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’زندگی کو واپس معمول پر لانے کا واحد ذریعہ ویکسین ہی ہے‘

سعودی عرب میں گزشتہ سال دسمبر سے ویکیسن لگانے کی مہم کا آغاز کر دیا تھا۔ فوٹو عرب نیوز
سعودی عرب میں اب تک پچیس فیصد سے زیادہ آبادی کو کورونا ویکسین لگا دی گئی ہے۔
گزشتہ سال سے سعودی حکومت وائرس پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات کر رہی ہے۔ قومی سطح پر ویکسین لگانے کی مہم شروع ہونے تک سعودی عرب میں کورونا ضوابط کی سختی سے پابندی کی جاتی رہی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق سعودی ماہرین صحت کے خیال میں کورونا وائرس سے لڑنے اور زندگی کو معمول پر واپس لانے کے لیے ویکسین لگوانا ضروری ہے۔
وبائی امراض کے ڈاکٹر نزار باهبری نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا  کہ ’سعودی حکومت نے لوگوں کے تحفظ کو اولین ترجیح دی اور سعودی عوام کو پریشان کن ’نیو نارمل‘ حالات سے بھی گزرنا پڑا۔ مساجد میں نماز ایک مرتبہ پھر شروع ہونے اور کافی شاپس پر جانے سے لوگوں کو محسوس ہوا کہ زندگی کچھ حد تک معمول پر آ رہی ہے۔ اکثریت نے ویکسین کو فوری ضرورت سمجھتے ہوئے لگوانا شروع کی۔‘
ڈاکٹر نزار باهبری نے کہا کہ سعودی عرب کورونا وائرس کا پھیلاؤ دوبارہ نہیں برداشت کر سکتا۔
’زندگی واپس معمول کے مطابق گزارنے کے لیے ویکسین ہی واحد ذریعہ ہے۔انسان دوست ہونے کے ناطے ویکسین لگوائیں، اپنے لیے، لوگوں کے لیے اور اپنے ملک سے محبت میں۔‘
مارچ 2020 میں عالمی ادارہ صحت کے کورونا وائرس کو ایک عالمی وبا قرار دینے کے بعد سعودی عرب نے متعدد اقدامات کرتے ہوئے اپنے صحت کے نظام کو محفوظ بنایا۔
سعودی عرب نے وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے پروازوں پر پابندی عائد کی، لاک ڈاؤن اور کرفیو لگانے کے علاوہ سماجی فاصلہ اور ماسک پہننے کو لازمی قرار دیا۔
حکومت کی کاوشوں اور عوام کے تعاون سے روزانہ کی بنیاد پر سامنے آنے والے کیسز کی تعداد پانچ ہزار سے تجاوز نہیں کر سکی۔

سعودی عرب میں فائز ویکیسن کی پہلی کھیپ دسمبر 2020 میں پہنچی تھی۔ فوٹو اے ایف پی

کورونا متاثرین کی تعداد میں کمی آنا شروع ہوئی، پابندیوں میں نرمی ہوئی اور لوگوں نے احتیاط برتتے ہوئے آہستہ آہستہ اپنے ارد گرد کی نئی حقیقت کو سمجھنا شروع کیا۔ لیکن زندگی کو معمول پر واپس لے جانے کے لیے ویکیسن انتہائی ضروری ہے۔
سعودی عرب نے عالمی سطح پر ویکسین کی تیاری کی حمایت کی تھی اور ویکسین کی مہم کے لیے 500 ملین ڈالر کی رقم بھی مختص کی تھی۔ سعودی حکومت نے 150 ملین ڈالر گلوبل الائنس فار ویکسین اینڈ ایمیونائزیشن کو اور 150 ملین ڈالر ایپڈیمک پریپئرڈنس اینڈ ایمیونائزیشن کو عطیہ کیے۔ جبکہ 200 ملین ڈالر علاقائی اور عالمی پروگراموں کی امداد کے لیے دیے۔
محتاط منصوبہ بندی اور بالکل صحیح وقت پر فائزر ویکسین کی پہلی کھیپ گزشتہ سال دسمبر میں سعودی عرب پہنچ گئی تھی جبکہ کچھ ہی عرصے بعد ایسٹرا زینیکا کی ویکیسن بھی سعودی شہریوں کو میسر ہوگئی تھی۔
سعودی فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی کے ویکسین کی منظوری دینے کے بعد قومی سطح پر ویکسین لگانے کی مہم کا آغاز کر دیا گیا تھا۔
سعودی ہیلتھ کونسسل کے مطابق 18 دسمبر 2020 تک 5 ہزار سعودی شہریوں کو ویکسین کی پہلی خوراک لگا دی گئی تھی، جبکہ 3 مارچ تک دس لاکھ شہریوں کو ویکسین لگ چکی تھی۔ تاہم دس لاکھ لوگوں کو ویکسین لگنا کافی نہیں ہے۔
گزشتہ ماہ متعدد وزارتوں بالخصوص وزارت حج و عمرہ اور وزارت برائے ہیومن ریسورس اینڈ سوشل ڈیویلپمنٹ کی جانب سے سفارشات پیش کی گئی تھیں۔ ان سفارشات کے مطابق چند حساس شعبوں کے ملازمین کے لیے ویکسین لگوانا یا ہر ہفتے کورونا ٹیسٹ کا نتیجہ ادارے کے پاس جمع کروانا لازمی قرار دیا گیا۔ تاہم ویکسین یا کورونا ٹیسٹ کا خرچہ اٹھانے کی ذمہ داری ادارے پر عائد کی گئی ہے۔

سعودی حکومت کے بروقت اقدامات کے باعث کورونا وائرس پر قابو پایا گیا۔ فوٹو اے ایف پی

28 مارچ تک 40 لاکھ شہریوں کو ویکسین کی پہلی خوراک لگا دی گئی تھی جس کے بعد ویکسین لگانے کی مہم میں مزید تیزی آئی ہے۔ ہر پانچ سے سات دنوں میں ویکسین کی دس لاکھ خوراکیں لگانا شروع کر دی گئی تھیں۔
ڈاکٹر نزارباهبری کے مطابق ’ویکسین کے ذریعے ہی دروازے ایک مرتبہ پھر کھلنا شروع ہو جائیں گے، ویکسین لگوانے سے انکار کرنے والوں کو اس کے بھاری نتائج بھگتنا پڑیں گے۔‘
ڈاکٹر نزار باهبری نے کہا کہ ویکسین سے انکار کے باعث ایسے متعدد افسوسناک مواقعوں کا سامنا کرنا پڑے گا جس سے صحت کا نظام درہم برہم ہو سکتا ہے۔ عالمی وبا کے آغاز سے ہی سعودی حکومت اپنے صحت کے نظام کو کسی قسم کے نقصان سے بچا رہی ہے۔
سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی خبروں کے باعث ویکسین کے خلاف لوگوں کے خیالات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ غلط خبروں کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے ذمہ داران کو جرمانہ اور قید کی سزا بھی دی گئی ہے۔
ڈاکٹر نزار باهبری کا کہنا ہے کہ اس موقع پر لوگ ویکسین لگوانے سے ہچکچا نہیں رہے بلکہ غفلت کے باعث نہیں لگوا رہے۔
’ایسا ہوتے ہوئے دیکھنا انتہائی افسوسناک ہے۔ یہ غیر اسلامی ہے لیکن بدقسمتی سے لوگ سن ہی نہیں رہے اور نہ ہی ویکسین لگوانے کے احکامات پر کوئی توجہ دے رہے ہیں۔ یہ شہریوں اور کمیونٹی کے لیے انتہائی اہم قدم ہے۔‘

ہر پانچ سے سات دنوں میں ویکسین کی دس لاکھ خوراکیں لگائی جاتی ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

جدہ کے ایک ریٹائرڈ کاروباری شخص ابو الطلال نے عرب نیوز کو بتایا کہ گزشتہ سال بچوں، نواسوں اور پوتوں کے بغیر زندگی گزارنا انتہائی مشکل تھا۔
ابو الطلال کی اہلیہ پانچ سال قبل انتقال کر گئی تھیں۔ انہوں نے ویکسین کے خوف کا ذمہ دار سوشل میڈیا پر چلنے والے بیانات کو ٹھہرایا جو کانسپریسی تھیورسٹ یا ویکسین مخالف کارکن پھیلا رہے ہوتے ہیں۔
’میں ماہرین پر یقین رکھتا ہوں، حکومت پر یقین رکھتا ہوں، لیکن مجھے یہ نہیں معلوم کہ ویکسین لگوانے کے بعد مجھے کیا توقع رکھنی چاہیے۔‘
ابو الطلال کے مطابق ویکسین کے ناقدین ٹھوس شواہد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں کہ کورونا کی وبا ایک دھوکہ ہے اور ویکسین انسان کے جینز کے لیے نقصان دہ ہے۔ ابو الطلال نے کہا کہ اس قسم کے بیانات نے انہیں بھی دھوکے میں رکھے رکھا جس سے نکلنا ان کے لیے مشکل تھا۔
ابو الطلال نے عرب نیوز کو بتایا کہ اگرچہ بہت ہی خوفناک حالات ہیں لیکن بہت عرصہ انہوں نے ویکسین سے گزیر کیا لیکن پھر ان کے بیٹے نے ڈاکٹر سے وقت لے ہی لیا جس کے بعد انہیں ویکسین لگوانا پڑی۔
ابو الطلال نے بتایا کہ ان کے بچے بہت محتاط ہیں اور ان کا بھی تحفظ چاہتے ہیں۔ 
انہوں نے مزید کہا کہ معلومات پھیلانے میں شفافیت برتنے اور انٹرنیٹ اور لوگوں کی حمایت سے مدد ملتی ہے، کورونا کی وبا کو اب بہت عرصہ ہوگیا، ہمیں دوبارہ سے معمول کے مطابق زندگی گزارنے کی ضرورت ہے۔

شیئر: