Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی ضمنی الیکشن: پی پی کامیاب، تحریک انصاف پانچویں نمبر پر

امیدواروں نے الیکشن کمیشن سے ووٹنگ ٹائم میں اضافے کی درخواست کی تھی جسے مسترد کردیا گیا (فوٹو: اے ایف پی)
کراچی کے حلقہ این اے 249 میں جمعرات کو ہونے والے ضمنی انتخاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار قادر خان مندوخیل نے کامیابی حاصل کر لی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان کانٹے کا مقابلہ دیکھنے میں آیا اور ووٹوں کی گنتی کے دوران دونوں ہی جماعتیں حلقے میں اپنے امیدواروں کی برتری کا دعویٰ کرتی رہیں۔ 
تاہم الیکشن کمیشن کی جانب فارم 47 کے تحت مرتب کیے گئے حلقے کے تمام 276 پولنگ سٹیشن کے نتائج کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار قادر مندوخیل نے 16 ہزار 156 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کرلی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار مفتاح اسماعیل 15 ہزار 473 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر، تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار 11 ہزار 125 ووٹ لیکر تیسرے نمبر پر، پاک سر زمین پارٹی کے امیدوار نو ہزار 227 ووٹ لیکر چوتھے نمبر پر جب کہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف آٹھ ہزار 922 ووٹ لیکر پانچویں نمبر پر رہے۔
پیپلزپارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو نے ٹویٹ کیا کہ ’شکریہ کراچی۔‘
صوبائی وزیر تعلیم و محنت سندھ و صدر پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن نے کہا کہ این اے 249 میں پیپلز پارٹی کی کامیابی حق و سچ کی کامیابی ہے۔ ’کراچی کے غیور عوام نے آج ثابت کردیا ہے کہ وہ ماضی میں جس طرح سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں یرغمال تھے اب وہ آزاد ہیں۔‘
ترجمان سندھ حکومت بیرسٹر مرتضی وہاب نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی جیت سے حلقے کے دیرینہ مسائل کے حل میں مدد ملے گی۔ ’عوام نے بدترین مہنگائی اور ڈوبتی معیشت کے خلاف فیصلہ دیا۔ پی ٹی آئی نے صرف بلدیہ کی عوام کو ہی کو نہیں بلکہ پورے ملک کی عوام کو مایوس کیا۔‘
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے ٹویٹ کیا ’مسلم لیگ ن سے صرف چند سو ووٹوں سے الیکش چوری ہوا۔ الیکشن کمیشن متنازع ترین الیکشن کےنتائج روکے، مسلم لیگ ن بہت جلد دوبارہ واپس آئے گی۔ ووٹ کو عزت مل رہی ہے اور مل کر رہے گی‘۔
’نواز شریف کے بیانیے کی گونج خیبر سے کراچی تک ہے۔ اس کی سیاست کو ختم کرنے اور کہنے والوں کو خبر ہو‘۔
ایک اور ٹویٹ میں مریم نواز نے کہا کہ ’کراچی اورخصوصا NA 249 کی تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ انہوں نے نواز شریف اور مسلم لیگ ن کو ووٹ دیا اور مفتاح اسماعیل کو منتخب کیا۔ یہ ہم سب کے لیے ایک بہت اہم فتح ہے۔ عوام کے جاگنے کا بھی شکریہ۔‘
’آپ کے ووٹ چوری کرنے والے جلد آپ کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے۔ یہ ہمارا آپ سے وعدہ ہے‘۔
دوسری جانب ن لیگ کی مرکزی ترجمان مریم اورنگزیب نے الیکشن کمیشن سے کہا ہے کہ وہ نوٹس لے کہ دو گھنٹے سے ووٹوں کی گنتی کا عمل کیوں رکا ہوا ہے؟ 
تحریک انصاف نے این اے 249 کے نتائج مسترد کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے ہے کہ انتخابات میں الیکشن کمیشن اور پولیس کے ذریعے دھاندلی کی گئی۔
پی ٹی آئی رہنما خرم شیر زمان نے الزام لگایا کہ پوری الیکشن مہم میں الیکشن کمیشن کا کردار جانبدار رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کہیں الیکشن مہم میں ظاہر ہی نہیں تھی، جبکہ تمام سروے میں تحریک انصاف کامیابی حاصل کررہی تھی تاہم الیکشن کے دن اچانک پیپلزپارٹی اور ن لیگ سامنے آگئے۔

حلقہ 249 میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 30 ہزار ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

دوسری جانب، الیکشن کمیشن نے وقت سے پہلے نتائج نشر کرنے والے چینلز کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا ہے۔
ڈائریکٹر الیکشن کمیشن الطاف احمد نے کہا کہ انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا نوٹس لیتے ہوئے الیکشن کمیشن نے ایسے تمام چینلز کے خلاف پیمرا کو ہدایات جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
قبل ازیں پولنگ ڈے کے دوران تحریک انصاف اور ن لیگ کے رہنماؤں کی جانب سے بارہا الیکشن ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی دیکھنے میں آئی اور پابندی کے باوجود پی ٹی آئی ممبران اسمبلی بشمول سابق اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی نے حلقے کا دورہ کیا جس کے باعث الیکشن کمیشن نے متعدد ممبران سندھ و قومی اسمبلی کو حلقہ بدر کرنے کے احکامات جاری کیے۔
صبح 8 بجے پولنگ کا آغاز ہونے کے بعد ووٹ کاسٹ کرنے کا عمل بلاتعطل جاری رہا اور کہیں بھی تصادم یا بدمزگی دیکھنے میں نہیں آئی۔
حلقہ 249 میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 30 ہزار ہے جن کے لیے مجموعی طور پر 276 پولنگ سٹیشن قائم کیے گئےتھے۔
مردوں کے لیے 76 اور خواتین کے لیے 61 پولنگ سٹیشن، جبکہ مشترکہ پولنگ سٹیشن کی تعداد 139 تھے۔ البتہ حلقے میں ووٹنگ کا ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا۔
الیکشن کمیشن کی جانب نے حتمی شرح تو فلحال نہیں بتائی گئی البتہ الیکشن مبصرین کا کہنا ہے کہ ٹرن آؤٹ 10 سے 15 فیصد رہنے کا امکان ہے، اس کے برعکس 2018 کے عام انتخابات میں اس حلقے کا ٹرن آؤٹ 40 فیصد تھا۔
ضمنی انتخابات میں عمومی طور پر ٹرن آؤٹ کم رہتا ہے، تاہم رمضان، گرم موسم اور کورونا وباء کا پھیلاؤ وہ بنیادی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے بہت کم لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے نکلے۔

حلقے کے 92 پولنگ سٹیشنز کو حساس جبکہ 184 کو انتہائی حساس قرار دیا گیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

واضح رہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے انہی وجوہات کو بیان کرتے ہوئے الیکشن ملتوی کرنے کی استدعا کی گئی تھی جسے الیکشن کمیشن نے مسترد کردیا تھا۔
ووٹنگ ٹرن آؤٹ کم رہنے کی ایک اور بڑی وجہ ورکنگ ڈے میں ووٹنگ کا انعقاد تھا۔ استدعا کے باوجود الیکشن کو چھٹی والے دن نہیں رکھا گیا۔ گو کہ سندھ حکومت نے حلقے میں سرکاری سطح پر تعطیل کا اعلان کیا تھا تاہم حلقہ کے زیادہ تر آبادی متوسط اور مزدور طبقے پر مشتمل ہے جو روزگار اور نوکریوں کے لیے شہر کے دوسرے علاقوں کو جاتے ہیں۔
یہی وجہ تھی کہ پولنگ سٹیشن پر مردوں کے مقابلے میں خواتین کی زیادہ تعداد ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے آئی تھی۔
مجموعی طور پر پولنگ منظم طریقے سے جاری رہی البتہ ایک پولنگ سٹیشن پر ریٹرننگ آفیسر نے وقت سے پہلے ہی فارم 45 پر پولنگ ایجنٹوں سے دستخط لیے تھے جس کی نشاندہی پر ان فارمز کو منسوخ کیا گیا۔ فارم 45 پر الیکشن کا نتیجہ پریزائیڈنگ افسر کو بھجوایا جاتا ہے اور اصل کے مطابق گنتی مکمل ہونے کے بعد ہی پولنگ ایجنٹ تسلی کر کے اس پر دستخط کرتے ہیں۔
حلقے کے 92 پولنگ سٹیشنز کو حساس جبکہ 184 کو انتہائی حساس قرار دیا گیا تھا۔ حلقے میں سکیورٹی کے لیے پولیس کے 2,800 اہلکار اور رینجرز کے 1,100 اہلکاروں کو تعینات کرنے کے ساتھ ساتھ کیمروں سے مانیٹرنگ بھی کی گئی۔

شیئر: