Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فیس بک اور انسٹاگرام کا ’تعصبانہ رویہ‘، فلسطین سے متعلق مواد ڈیلیٹ

صارفین کا کہنا ہے کہ فلسطین سے متعلق ان پوسٹس کو ہٹایا گیا (فوٹو: عرب نیوز)
اس درد کا تصور کریں کہ آپ کو آپ کے گھر سے نکال دیا جائے اور سوچیں کہ اس کے بعد آپ دنیا کو یہ بتانے کے قابل بھی نہ ہوں۔
یہی کچھ ہو رہا ہے یروشلم کے علاقے شیخ جراہ میں رہنے والوں کے ساتھ، جہاں انیس سو اڑتالیس سے اٹھائیس گھر ہیں اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق مشرقی یروشلم کو فلسطین کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق اس سال کے آغاز میں یروشلم کی عدالت نے چار خاندانوں کو قریبی علاقے میں گھروں سے بے دخل کرنے کے فیصلے کی منظوری دی تھی۔ عدالت نے اس فیصلے کے حوالے سے چھ مئی کو رولنگ دینا تھی تاہم اس کو دس مئی ملتوی کیا گیا۔
سینکڑوں سوشل میڈیا صارفین انسٹاگرام اور فیس بک پر الزام لگا رہے ہیں کہ شیخ جراہ میں ہونے والے تشدد کی رپورٹس پر مبنی مواد کو ہٹایا گیا ہے۔
فلسطینی صحافی ماہا رازق کی ایک ویڈیو جس کو ڈیلیٹ کیا گیا، وہ ایک اسرائیلی نو آباد کار جیکب کے بارے میں تھی، جنہوں نے دو ہزار نو میں مونا ال کرد کا گھر کا قبضہ سنبھالا تھا۔
 ان کا کہنا تھا کہ ’اگر وہ ان کے گھر کو نہیں چرائیں گے تو کوئی اور ایسا کر لے گا۔‘
ماہا رازق نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’میں نے کچھ ویڈیوز اور علاقے میں موجود لوگوں کی باتیں شیئر کیں جن میں سے کچھ تو اسرائیلی آباد کاروں کے منہ سے ادا ہوئی تھیں، یہ سب کچھ متنازع کیسے ہو گیا؟ ہر ایک کے اندر وضاحت موجود تھی، ان میں کوئی خون آلود مواد نہیں تھا جس سے کمیونٹی کے معیار کی خلاف ورزی ہوئی ہو۔‘

کئی صارفین کو انتتباہی پیغامات بیھ موصول ہوئے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’صرف شیخ جراہ سے متعلق ان کا مواد ہٹایا گیا۔‘
بقول ان کے ’میری آرکائیو سے وہ تمام پوسٹس ہٹائی گئیں جو فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے جرائم کو بے نقاب کرتی تھیں۔‘
یروشلم سے تعلق رکھنے والے فلسطینی لکھاری محمد الکرد نے شیخ جراہ میں ہونے والے تشدد کے حوالے سے پوسٹس کیں تو انہیں انتباہی پیغام موصول ہوا کہ آپ کی کچھ پوسٹس ڈیلیٹ کی جا سکتی ہیں۔ اور ساتھ یہ پیغام بھی ملا ’آپ کی کچھ پچھلی پوسٹس کمیونٹی کی ہدایات کے مطابق نہیں۔‘
 پیغام میں یہ بھی لکھا گیا کہ ’اگر آپ نے ہدایات کی پھر سے خلاف ورزی کی تو آپ کے اکاؤنٹ کو تصاویر، پوسٹس، پیغامات، فالوورز اور پوسٹس سمیت ڈیلیٹ کیا جا سکتا ہے۔‘
فیس بک کی جانب سے ستاون اشیا پر مشتمل ان کا مواد ہٹایا گیا۔
یاسمین دابت کا کہنا ہے کہ ان کی سٹوریز جو سیو شیخ جراہ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ تھیں اور تین مئی کو شیئر کی گئیں، ان کو انسٹاگرام نے بغیر کسی انتباہی پیغام کے ہٹا دیا۔
انسٹاگرام جو کہ فیس بک کی ہی ملکیت ہے، اس کی جانب سے ٹویٹ کی گئی کہ چھ مئی کو سینکڑوں لوگوں کی جانب سے سنسرشپ کی رپورٹ کے بعد ٹیکنکل مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ادارے کی جانب مزید لکھا گیا ’ہمیں معلوم ہے کہ کچھ لوگوں کو اپ لوڈنگ اور سٹوریز دیکھنے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، یہ ایک بڑا اور عالمی سطح کا مسئلہ ہے اس کا کسی خاص موضوع سے تعلق نہیں ہے، اس کو درست کیا جا رہا ہے۔‘
فلسطینیوں کے ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والی فلاحی تظیم کے ڈائریکٹر ندیم ناشف کہتے ہیں کہ اداروں کی جانب سے ایسی وضاحت جاری کیے جانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
 

شیئر: