Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اساتذہ پر تشدد: ’یونیورسٹیوں کو اپنا گھر درست کرنا چاہیے‘

وزیراعلی کے معاون خصوصی نے جامعات کو خرابی کا ذمہ دار قرار دیا ہے (فوٹو: سکرین گریب)
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں تنخواہوں میں کٹوتی پر احتجاج کرنے والے یونیورسٹی اساتذہ اور ملازمین پر تشدد کی ویڈیوز اور تصاویر سامنے آنے کے بعد پولیس اور صوبائی حکومت شدید تنقید کی زد میں ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے اپنے بیانات میں حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔
سوشل ٹائم لائنز پر شیئر کی جانے والی ویڈیوز اور تصاویر میں اساتذہ اور یونیورسٹی ملازمین کی جانب سے پشاور میں صوبائی اسمبلی کی عمارت کے قریب احتجاج کے دوران پولیس کا لاٹھی چارج نمایاں ہے۔
ان ویڈیوز پر تبصرہ کرنے والے جہاں جامعات کے اساتذہ اور دیگر ملازمین کے مطالبات اور احتجاج کے پس پردہ وجوہات پر گفتگر کرتے رہے وہیں تشدد کرنے والے پولیس افسران و اہلکاروں کے ساتھ احتجاج سے عام شہریوں کے لیے پیدا ہونے والی مشکلات کا ذکر بھی نمایاں رہا۔
ذیشان خٹک نامی ایک صارف نے تنخواہوں میں کٹوتی پر احتجاج کرنے والوں پر لاٹھی چارج، آنسو گیس کی شیلنگ اور اساتذہ کی گرفتاریوں کا ذکر کیا تو پشاور پولیس چیف کو لکھا ’ایس ایس پی صاحب سے کہیں یوم اساتذہ پر اب سوشل میڈیا پر ٹیچرز کی تعریف نہ کریں‘۔
 
احتجاج کی وجہ بننے والے اقدامات کا ذکر ہوا تو کچھ افراد تعلیمی اداروں کی جانب سے مالی مشکلات کے باعث پوری تنخواہیں ادا نہ کر سکنے سے متعلق احکامات بھی شیئر کرتے رہے۔

احتجاجی مظاہرین پر تشدد کے معاملے پر عام سوشل میڈیا صارفین کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی پولیس اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
پی ڈی ایم کے صدر اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اپنی ٹویٹ میں تشدد کی مذمت کی تو اسے افسوس ناک قرار دیا۔

جماعت اسلامی کے صوبائی امیر سینیٹر مشتاق احمد خان نے اپنے ردعمل میں حکومت کو خرابی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ’واقعے کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائے‘۔

عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی ترجمان ثمر ہارون بلور نے اپنے ردعمل میں مظاہرین کے مطالبات کی حمایت کی تو حکومت سے سنجیدہ اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا۔

سوشل میڈیا پر تنقید اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے مظاہرین کے مطالبات کی حمایت کے بعد صوبائی حکومت نے معاملے پر ردعمل دیا تو خرابی کی ذمہ داری حکومت پر عائد کیے جانے کو غلط قرار دے ڈالا۔
وزیراعلی خیبرپختونخوا کے معاون خصوصی برائے اعلی تعلیم کامران بنگش نے دو الگ ٹویٹس میں کہا کہ ’جامعات کی انتظامیہ کے غلط فیصلوں کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ محدود وسائل کے باجود صوبائی حکومت نے پہلے بھی جامعات سے تعاون کیا اور آئندہ بھی کرے گی لیکن یونیورسٹیوں کو خود اپنا گھر درست کرنا چاہیے۔ مالی نظم و ضبط سے متعلق اصلاحات پر عمل نہ کیا گیا تو صورتحال کا سامنا کرنا دشوار ہو جائے گا‘۔

وزیراعلی کے معاون خصوصی کی جانب سے کی گئی ٹویٹس اور ان میں پیش کردہ موقف سے جہاں کچھ لوگوں نے اتفاق کیا وہیں خاصے ایسے بھی تھے جو اسے درست ماننے کو تیار نہ تھے۔
عاقب اقبال نامی ایک صارف نے جہاں وزیراعلی کے معاون خصوصی کے جواب پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا ’حقائق وہ نہیں جو آپ بتا رہے ہیں۔ اگر یونیورسٹیوں کی انتظامیہ صورتحال بگڑنے کی ذمہ دار ہے تو انہیں ان پوزیشنوں پر کون مقرر کرتا ہے‘۔

سوشل ٹائم لائنز پر جہاں احتجاج کرنے والے اساتذہ اور دیگر یونیورسٹی ملازمین سے اظہار یکجہتی کیا گیا، وہیں احتجاج سے پیداشدہ صورتحال پر بھی کچھ صارفین نالاں دکھائی دیے۔
افتخار فردوس نامی صارف نے شہر کی صورتحال بتانے کے لیے احتجاج کی تصویر شیئرتے ہوئے کہا کہ ’ہر روز ہی احتجاج ہوتا ہے، کل سیاسی احتجاج تھا، آج یونیورسٹی ملازمین کا اور کل لوڈشیڈنگ کے خلاف۔ اس سڑک کو احتجاج کے لیے اور سفر کے لیے دوسری شاہراہ بنا دی جائے‘۔
دوست محمد خان نامی ایک صارف نے مظاہرین کے مطالبات کا ذکر کرتے ہوئے حکومت سے جامعات کی صورتحال بہتر کرنے کی درخواست کی تو کچھ تجاویز بھی شیئر کیں۔

پیر کے روز پشاور کی اہم شاہراؤں میں سے ایک پر جامعات کے اساتذہ و دیگر عملے کی جانب سے احتجاجی مارچ کیا گیا جو صوبائی اسمبلی کی عمارت کے باہر پہنچا، اس مقام پر پولیس نے مظاہرین کو روک کر ان کے خلاف کارروائی کی تھی۔
پولیس کے تشدد سے ناخوش صارفین میں سے کچھ بات کو وزیراعظم عمران خان تک لے گئے۔ ان افراد کو شکوہ تھا کہ وزیراعظم خیبرپختونخوا کی جس ’مثالی پولیس‘ کا ذکر کرتے رہے ہیں، وہ یہ ہے جو اساتذہ پر بھی تشدد سے نہیں چوکتی۔

شیئر: