Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا: ایک ہی خاتون سے شادی کرنے والے دو بھائی جنہیں اپنی روایت پر فخر ہے

’ہٹی قبیلے‘ میں صدیوں سے دو بھائیوں کی ایک خاتون سے شادی کرنے کی رسم موجود ہے (فوٹو: فیس بُک)
انڈیا کی ریاست ہماچل پردیش کے دو بھائیوں نے ایک ہی خاتون سے شادی کرنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوامی تنقید نے انہیں متاثر نہیں کیا اور وہ ’ہٹی قبیلے‘ کی صدیوں پرانی روایت پر فخر محسوس کرتے ہیں۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق ہماچل کے علاقے شِلائی کے ’تھِندو خاندان‘ سے تعلق رکھنے والے نیگی برادران نے کُنہَت گاؤں کی رہائشی سنیتا چوہان سے روایتی ’جوڑی دار پرتھا‘ رسم کے تحت شادی کی تھی۔
یہ شادی گزشتہ ماہ کی 20 تاریخ کو سامنے آئی تھی جس کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے اس رسم کی تقلید کرنے پر تنقید کی جا رہی تھی تاہم اب ان بھائیوں نے اس شادی کے متعلق وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ شادی ’جوڑی دار پرتھا‘ کے تحت کی گئی ہے جو ان کے ذاتی عقیدے سے بڑھ کر ایک سماجی اور ثقافتی اہمیت رکھتی ہے۔
فیس بک پر جاری ایک ویڈیو میں پردیپ نیگی نے کہا کہ ’یہ روایت نسلوں سے چلی آ رہی ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گی۔ مجھے اس بات کی پروا نہیں کہ کچھ لوگ سوشل میڈیا پر ہمیں برا بھلا کہہ رہے ہیں۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’جوڑی دار پرتھا‘ صرف ہمارے علاقے تک محدود نہیں بلکہ اتراکھنڈ کے جاؤنسار باور خطے میں بھی رائج ہے، جہاں شادی کے موقعے پر دونوں دلہے ایک ہی دلہن کے ساتھ مالائیں بدلتے ہیں۔‘
پردیپ نیگی کے بھائی کپل نیگی نے بتایا کہ ان کی شادی باہمی رضا مندی سے ہوئی ہے جبکہ بعض علاقوں میں جبری طور پر ایسی شادیاں کی جاتی ہیں۔ شادی کا یہ رشتہ دونوں بھائیوں اور ان کی بیوی کی رضامندی سے ہوا اور ان کے خاندانوں نے بھی مکمل طور پر اس کی تائید کی۔
پردیپ کہتے ہیں کہ ’میں اپنی روایات اور ثقافت کا دفاع کرتا رہوں گا۔ جو لوگ ہمارے رسم و رواج سے واقف نہیں وہ بھی اپنی رائے دے رہے ہیں۔ ہم سب نے اس شادی پر اتفاق کیا تھا اور ہمارا خاندان اور معاشرہ اس سے خوش ہے۔‘
کپل نیگی کا کہنا تھا کہ ’ہمارا کا تعلق ایک غریب خاندان سے ہے، ہمارے پاس زیادہ زمین جائیداد نہیں اور نہ ہی شہرت حاصل کرنے کا کوئی ارادہ تھا۔ ہم نے یہ شادی میڈیا کی مشہوری کے لیے نہیں کی۔‘
پردیپ نیگی نے کہا کہ ’اس شادی کا واحد مقصد ایک ساتھ رہنا اور ایک دوسرے سے محبت قائم رکھنا ہے۔ ہم لوگوں سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں تنقید کا نشانہ نہ بنائیں کیونکہ یہ ہماری زندگی ہے اور ہم اس میں خوش ہیں۔‘
رپورٹ کے مطابق انڈیا کے کچھ علاقوں میں یہ قدیم رسم صدیوں سے اس لیے رائج ہے کہ اس کے ذریعے آبائی زمین کو تقسیم ہونے سے بچایا جا سکے جو زراعت سے وابستہ پہاڑی خاندانوں کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس روایت میں عموماً بڑے بھائی کو ایسے بچوں کا قانونی والد تسلیم کیا جاتا ہے۔

 

شیئر: