Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

معصوم دہلوی کا کالم: ہم جیل میں ہی ٹھیک ہیں

شاید قیدی سوچتے ہوں گے کہ اگر گھر میں ہی رہنا ہوتا تو جیل کیوں آتے (فوٹو اے ایف پی)
حکومتوں کو فکر ہو یا نہ ہو، لیکن ایسا بھی نہیں کہ کوئی پرسان حال ہی نہیں۔ جب انڈیا میں کورونا وائرس کی پہلی لہر تباہی مچا رہی تھی تو سپریم کورٹ نے حکم صادر کیا تھا کہ ملک کی جیلوں میں جہاں تک ممکن اور مناسب ہو قیدیوں کی بھیڑ کم کردی جائے۔
لہٰذا ایسے قیدیوں کو ضمانت پر رہا کیا جانے لگا جن پر عائد الزامات کی نوعیت زیادہ سنگین نہیں تھی یا جو چھوٹے موٹے الزمات ثابت ہونے کے بعد سزائیں کاٹ رہے ہیں۔
مگر قیدی بھی اپنی مرضی کے مالک ہوتے ہیں، غلطی ہوگئی تو ہوگئی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ حکومت انہیں جہاں چاہے ہانک دے۔
بہت سے قیدیوں کو اپنے اختیارات کی بھی خبر ہے اور اپنے بھلے برے کا احساس بھی، انہیں لگتا ہے کہ وہ جیل کے اندر زیادہ سکون سے بھی ہیں اور محفوظ بھی۔ اس لیے انہوں نے ضمانت پر رہا ہونے سے انکار کردیا ہے۔ شاید سوچتے ہوں گے کہ اگر گھر میں ہی رہنا ہوتا تو جیل کیوں آتے۔

 

صرف مہارشٹر میں 10 ہزار سے زیادہ قیدیوں کو رہا کیا جاچکا ہے, لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کی سزائیں معاف کر دی گئی ہیں۔ وہ پے رول پر اپنے گھر جا سکتے ہیں لیکن پھر واپس لوٹ کر انہیں اپنی سزا پوری کرنی ہوگی۔
اس لیے بہت سے قیدیوں کو لگتا ہے کہ جب سزا پوری کرنی ہی ہے تو پوری کر کے ہی جائیں گے۔ ایسا تو ہے نہیں کہ باہر جاتے ہی کوئی نوکری مل جائے گی۔ زیادہ تر کا تعلق غریب خاندانوں سے ہے اس لیے کچھ کو یہ بھی لگتا ہےکہ گھر جاکر باقی لوگوں پر بوجھ بننے سے اچھا ہے کہ جیل میں ہی رہیں۔ یہاں جیسا بھی ہے کھانے، رہنے اور علاج کا انتظام بھی ہے اور کم ہی صحیح مگر کام کرنے کے پیسے بھی ملتے ہیں۔
تاہم حکومتیں عدالتوں کے احکامات پر بہت سنجیدگی سے عمل کرتی ہیں۔
عدالت نے کہا کہ قیدیوں کو گھر بھیجو تو فہرستیں تیار ہونے لگیں۔ بس غلطی یہ ہوئی کہ قیدیوں سے ان کی رضامندی نہیں لی گئی۔
جب لوگوں کو جیل سے زبردستی رہا کرنے کی خبریں آئیں تو ممبئی ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ کسی کو جیل سے جانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
بھائی، وہ سرکاری مہمان ہی صحیح لیکن مہمان نوازی کے آداب سے تو انہیں محروم نہیں کیا جانا چاہیے۔ اب کم سے کم یہ تو طے ہوگیا ہے کہ جیل میں قیدی بھلے ہی اپنی مرضی سے نہ آتے ہوں، لیکن جانا کب چاہتے ہیں یہ فیصلہ ان کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔
اور انڈیا میں جیلوں کی حالت بھی کچھ ایسی نہیں ہے کہ وہاں لوٹنے کا دل کرے۔ اب یہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ جیلوں میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ویسے تو مجموعی طور پر دنیا میں ہی دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں: اچھے اور برے۔ بروں میں سے کچھ جیل جاتے ہیں اور کچھ بچ جاتے ہیں۔ لیکن اچھوں میں سے بھی کچھ جیل پہنچ جاتے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ انہوں نے کوئی جرم کیا ہو کبھی کبھی بس اس لیے بھی کہ حکمرانوں کو ان کی باتیں پسند نہیں آتیں۔

انڈیا کی جیلوں میں بے پناہ بھیڑ کی ایک وجہ یہ ہے کہ ذیلی عدالتیں ملزمان کو ضمانت دینے سے بچتی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس لیے ان کے خلاف فرضی مقدمات قائم کر دیے جاتے ہیں۔ اب مقدمہ قائم کرنا ہی ہے تو کم سے کم ایسی دفعات تو لگائی جائیں کہ بندا کچھ وقت جیل میں گزارے، چاہے وہ دفعہ بنتی ہو یا نہیں۔ تبھی تو اسے عقل آئے گی کہ بس اپنے کام سے کام رکھے۔
انڈیا کی جیلوں میں بے پناہ بھیڑ کی ایک وجہ یہ ہے کہ ذیلی عدالتیں ملزمان کو ضمانت دینے سے بچتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ بڑی تعداد میں ملزمان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ کوئی اچھا وکیل کھڑا کر سکیں۔
اس لیے مقدمے کی سماعت کے دوران بھی وہ جیل میں پڑے رہتے ہیں، حالانکہ انصاف کا بنیادی اصول ہے کہ ’جیل نہیں بیل‘ یعنی پہلی کوشش یہ نہیں ہونی چاہیے کہ ملزم کو جیل بھیج دیا جائے، بس اگر کیس کی نوعیت ایسی ہو کہ ضمانت پر رہا کرنا ممکن نہ ہو تب ہی ملزمان کو جیل بھیجا جانا چاہیے۔ لیکن یہ کتابی باتیں ہیں۔
ایک دفعہ جو آجکل کافی فیشن میں ہے وہ ہے 120 اے یعنی بغاوت۔ یہ انگریزوں کے زمانے کا قانون ہے۔ کسی کو جیل بھیجنا ہو اور اس بات کو یقینی بنانا ہو کہ اسے کسی ذیلی عدالت سے ضمانت نہ مل جائے تو بس بغاوت کا مقدمہ قائم کر دیجیے۔
حالات کچھ اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ جنوبی ریاست تیلنگانہ میں ایک رکن پارلیمان کو بغاوت کے الزام میں گرفتار کیا گیا، بظاہر صرف اس لیے کہ وہ اپنی پارٹی کے لیڈر کی ہی مخالفت کر رہے تھے۔ اب پارٹی کا لیڈر وزیراعلیٰ بھی ہو تو اس سے کم سنگین مقدمہ بنتا بھی نہیں۔
لیکن جیسا میں نے پہلے کہا کہ حکمران آپ کا حال پوچھیں نہ پوچھیں، کچھ پرسان حال ابھی باقی ہیں۔ اس لیے سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اب یہ طے کرنے کا وقت آگیا ہے کہ بغاوت کا مقدمہ کن حالات میں قائم کیا جا سکتا ہے، مطلب اب اس بات کی تشریح ہوگی کہ بغاوت کے زمرے میں کیا باتیں آتی ہیں اور کیا نہیں۔
عدالت نے یہ بات تیلنگانہ کے دو ٹی وی چینلوں کی ایک پٹیشن کی شنوائی کرتے ہوئے کہی۔ دونوں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔ الزام ہے کہ انہوں نے نفرت پھیلانے اور حکومت کے خلاف جذبات بھڑکانے میں تیلنگانہ کے اس رکن پارلیمان کی مدد کی تھی جس کا ذکر ہم نے ذرا پہلے کیا۔

انڈیا میں بڑی تعداد میں ملزمان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ کوئی اچھا وکیل کھڑا کر سکیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

عدالت نے ایم پی کی تقریر پڑھنے کے بعد پوچھا کہ ’یہ بغاوت ہے؟ یہ صرف میڈیا کی آواز دبانے کی کوشش ہے۔‘
اور پھر عدالت نے اپنے ریمارکس میں کچھ ایسا کہا جسے پڑھ کر آپ کو لگے گا کہ عدالتیں اتنی بورنگ بھی نہیں ہوتیں جتنا ہم سمجھتے تھے۔
اتر پردیش کی حکومت نے کورونا وائرس کی دوسری لہر کے دوران سوشل میڈیا پر اپنی ناراضی اور بے بسی ظاہر کرنے والوں کے خلاف مقدمات قائم کرنا شروع کیے تھے۔ اس وقت کورونا وائرس سے مرنے والے بہت سے لوگوں کی لاشیں دریاؤں میں بہائی جا رہی تھی۔ چند روز پہلے یہ دنیا بھر میں بڑی خبر بنی۔
چند روز قبل ہی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں دو لوگ ایک شخص کی لاش دریا میں پھینکتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم نے ایک ٹی وی چینل پر یہ ویڈیو دیکھی تھی، (ذرا معلوم تو کیجیے کہ) اس چینل کے خلاف ابھی بغاوت کا مقدمہ قائم ہوا کہ نہیں!

شیئر: