Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گذشتہ سال بجٹ کی منظوری میں اپوزیشن کا کردار کیا رہا؟

پاکستان میں جون کا مہینہ شروع ہوتے ہی ہر طرف بجٹ بجٹ کا شور برپا ہوتا ہے۔ حکومت کی جانب سے عوامی بجٹ پیش کرنے کے دعوے کیے جاتے ہیں تو اپوزیشن ہمیشہ ہی بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے الفاظ کا گورکھ دھندہ قرار دیتی ہے۔ 
اب کی بار بجٹ پر شور اس وجہ سے بھی زیادہ سنائی دے رہا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح میں تو کمی واقع نہیں ہو رہی تاہم حکومت نے مئی کے آخری ہفتے میں معاشی ترقی کی شرح تقریباً چار فیصد رہنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اپوزیشن اس دعوے کو جھٹلا رہی ہے۔ 
حال ہی میں مسلم لیگ ن نے ایک پری بجٹ سیمینار کا انعقاد کیا جس میں اس کی پوری ٹیم نے حکومتی معاشی کارکردگی کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے اعداد و شمار پر سوالیہ نشان موجود ہے۔‘

گزشتہ بجٹ پر کیا ہوا؟

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور اپوزیشن کے ارکان میں تعداد کا فرق کم ہونے کی وجہ سے ہر سال بجٹ سے قبل یہ تاثر ابھرتا ہے کہ کہیں ملکی تاریخ میں پہلی بار حکومت کو بجٹ منظوری میں ناکامی کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے جس کا پارلیمانی زبان میں مطلب عدم اعتماد کہلاتا ہے اور حکومت ٹوٹ جاتی ہے۔ 
گذشتہ سال بھی بجٹ اجلاس سے پہلے اس تاثر کو بہت تقویت دی گئی کہ ملکی معاشی صورت حال کے باعث تحریک انصاف کی حکومت بجٹ منظور نہیں کروا سکے گی۔
اجلاس سے چند روز قبل کورونا کی صورت حال کے پیش نظر ورچوئل اجلاس کی تجویز سامنے آئی تو قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے اسے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ ’حکومت کو معلوم ہے کہ وہ بجٹ پاس نہیں کروا سکے گی اس لیے ورچوئل اجلاس بلا کر بجٹ پاس کروانا چاہتی ہے۔ اپوزیشن اس کی اجازت نہیں دے گی۔‘ 

مہنگائی میں اضافے کے باوجود حکومت نے معاشی ترقی کا دعویٰ کیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم بجٹ اجلاس سے چند دن قبل 25 فیصد حاضری کے ساتھ بجٹ سیشن بلانے پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے ہوگیا۔ یہ بھی محض اتفاق تھا کہ بجٹ سے پہلے ہی قائد حزب اختلاف شہباز شریف سمیت متعدد حکومتی اور اپوزیشن ارکان قومی اسمبلی کورونا کا شکار ہوگئے۔
شہباز شریف پورے بجٹ اجلاس سے غیر حاضر رہے اور پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار اپوزیشن لیڈر نے بجٹ پر بحث کا آغاز نہ کیا۔ 
اب بھی اپنی رہائی اور بیرون ملک روانگی میں ناکامی کے بعد سے مسلم لیگ ن کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف گذشتہ دنوں میں متعدد مرتبہ پارلیمانی اپوزیشن کو بجٹ ناکام بنانے کی دعوت دیتے نظر آئے ہیں۔
موجودہ صورت حال میں ایسا ممکن ہے یا نہیں اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ’اس وقت دونوں جماعتوں کے درمیان اعتماد کا شدید فقدان ہے۔‘
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پیپلز پارٹی کے ایک رہنما نے بتایا کہ ’گذشتہ سال مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے بجٹ ناکام بنانے کے حوالے سے اتفاق کیا لیکن جب بجٹ منظوری کا مرحلہ آیا تو مسلم لیگ ن کی اعلیٰ پارلیمانی قیادت غائب ہوگئی جس وجہ سے حکومت نے آسانی سے بجٹ پاس کرا لیا۔‘
پی پی پی رہنما کے مطابق ’بجٹ منظوری روکنے کے لیے بلاول بھٹو زرداری نے تین مرتبہ شہباز شریف سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انھیں کامیابی حاصل نہ ہوئی۔‘
پیپلز پارٹی کے رہنما کے اس دعوے کی مسلم لیگ ن کی جانب سے کوئی تردید یا تصدیق تو نہیں ہو سکی البتہ گذشتہ سال بجٹ منظوری کے فوراً بعد وفاقی وزیر اسد عمر کی یہ ٹویٹ پوری کہانی بیان کر رہی ہے۔ 

حماد اظہر کی تقریر کے دوران کیا ہوتا رہا؟

چونکہ بجٹ اجلاس کورونا کی وجہ سے نئے ایس او پیز کے تحت منعقد کیا جا رہا تھا، اس لیے ایوان میں صرف 86 کرسیاں لگائی گئی تھیں اور مختلف جماعتوں کی طرف سے نامزد افراد کو ہی ایوان میں داخلے کی اجازت تھی۔
یہ اجلاس ااس لحاظ سے بھی ماضی کے اجلاسوں سے مختلف تھا کہ اس کی کارروائی میں ایک ویرانی سی چھائی ہوئی تھی۔ خوف کا عالم تھا اور ہر آدمی دوسرے سے گھبراتا نظر آیا۔
اجلاس شروع ہوا تو حکومت کے 46 اور حزبِ اختلاف کے 40 ارکان ایوان میں موجود تھے۔ ایک بڑے عرصے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے بھی قومی اسمبلی اجلاس کے میں شرکت کی تھی۔
پھر ایوان میں ارکان کی کم تعداد حکومت کے لیے بھی باعثِ اطمینان تھی کہ اگر احتجاج ہوا بھی تو شور اتنا نہیں ہوگا جتنا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔
بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن ارکان پلے کارڈز لہراتے اور آٹا چور، چینی چور کے نعرے لگاتے رہے لیکن وہ سکرینوں پر دکھائی نہ دیے۔ 
اس بجٹ اجلاس میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کورونا، خورشید شاہ قید اور آصف زرداری بیماری کی وجہ سے شریک نہیں ہوئے جبکہ بلاول بھٹو زرداری اسلام آباد میں ہونے کے باجود ایوان میں نہیں آئے تھے۔ 
اپوزیشن ایک گھنٹے تک احتجاج کرنے کے بعد ایوان سے واک آوٹ کر گئی تھی۔ 

وفاقی حکومت نے معاشی ترقی کی شرح چار فیصد ہونے کا دعویٰ کیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

بجٹ بحث، کس نے کیا کیا؟ 

ایک غیر سرکاری تنظیم فافن کی رپورٹ کے مطابق بجٹ 2021-2020 کے لیے اجلاس 5 جون 2020 سے شروع ہو کر 30 جون 2020 تک جاری رہا جبکہ بجٹ 12 جون کو پیش کیا گیا یعنی بجٹ کے کل 18 دنوں میں 14 دن کارروائی ہوئی۔
بجٹ پر مجموعی طور پر 62 گھنٹے 42 منٹ تک بحث ہوتی رہی۔ 340 میں سے 199 ارکان نے بجٹ پر ہونے والی بحث میں حصہ لیا جبکہ 41 فیصد ارکان نے خاموش رہنا ہی مناسب سمجھا۔ 
بحث میں حصہ نہ لینے والے اراکین میں سے 60 کا تعلق پی ٹی آئی، 36 کا تعلق پاکستان مسلم لیگ ن، 24 کا پاکستان پیپلز پارٹی، پانچ کا پاکستان مسلم لیگ ق، چار کا بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی)، چار کا ہی متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے)، 3 کا گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور باقی کا دیگر جماعتوں سے تھا۔ 
پورے اجلاس کے دوران وزیراعظم نے 18 میں سے چار اجلاسوں میں شرکت کی جبکہ اپوزیشن لیڈر اجلاس کے آغاز سے قبل کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے باعث کسی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔
پورے اجلاس کے دوران چار مرتبہ واک آؤٹ ہوا جبکہ اپوزیشن نے دو مرتبہ احتجاج کیا۔ 

گذشتہ سال بجٹ اجلاس میں وزیراعظم نے صرف 4 اجلاسوں میں شرکت کی تھی (فوٹو: اے ایف پی)

بجٹ منظوری کیسے ہوئی؟ 

2020-21 کے بجٹ کی منظوری کے وقت بھی جہاں اپوزیشن بظاہر کمر کس کر بیٹھی ہوئی تھی کہ بجٹ میں حکومت کو ناکام کرنا ہے، وہیں وزیراعظم عمران خان پہلی بار ایک روایتی وزیراعظم کے طور پر نظر آئے۔
بجٹ منظوری سے ایک روز قبل انھوں نے حکومتی اور اتحادی ارکان کے اعزاز میں عشائیے کا اہتمام کیا۔ عشائیے میں سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر 12 ناراض ارکان اسمبلی کو منا کر لائے تھے۔
دوسری جانب حکومتی اتحادی اور وزیر ہاؤسنگ طارق بشیر چیمہ کی طرف سے عین اس وقت ارکان قومی اسمبلی کے اعزاز میں عشائیہ دیا گیا جب بیشتر اتحادی وزیراعظم عمران خان کی جانب سے دیے گئے عشائیے میں شرکت کے لیے جا رہے تھے۔
ق لیگ کے عشائیے میں چودھری مونس الٰہی، اسلم بھوتانی اور فہمیدہ مرزا سمیت 10 ارکان نے شرکت کی تھی۔ اس عشائیے کی وجہ سے بھی حکومت کو وقتی طور پر بجٹ منظوری سے متعلق خدشات پیدا ہوگئے تھے۔ 
تاہم اگلے دن جب منظوری کے لیے ووٹنگ ہوئی تو فنانس بل کے حق میں 160 ووٹ جبکہ مخالفت میں 119 ووٹ پڑے تھے۔ 
اس موقع پر بجٹ منظوری ناکام بنانے کی دعویدار اپوزیشن کے رہنما رانا ثنا اللہ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’وزیراعظم بجٹ منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں 172 نمبرز پورے نہیں کر سکے، آج پارلیمان میں حکومت کے 160 نمبرز تھے، عمران خان کو اکثریت کا اعتماد حاصل نہیں ہے۔‘

شیئر: