Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ہر بار افسوس ہی کریں گے؟‘ ٹرین حادثہ سوشل میڈیا پر موضوع بحث

فواد چودھری نے کہا کہ سعد رفیق کے گناہ پر اعظم سواتی استعفی دے دیں یہ بے تکی بات ہے۔ (فوٹو: گھوٹکی پولیس)
پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع گھوٹکی کےعلاقے ڈہرکی میں پیر کو علی الصبح  پیش آنے والے ٹرین حادثے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر سوشل میڈیا صارفین غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔
پاکستان میں ٹرین حادثات کی ایک طویل تاریخ ہے، گذشتہ چند سالوں کے دوران ان حادثات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
جیسا کہ پاکستان میں کسی بھی حادثے کے بعد شروع ہونے والے سلسلے کی طرح اس بار بھی حادثے کے بعد بھی الزام تراشیوں اور ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنے کی روایت کو دوہرایا گیا۔
حادثے کے بعد جب میڈیا اور سوشل میڈیا پر حکومت اور متعلقہ وزیر پر تنقید ہوئی اور یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ وزیر ریلوے حادثے کی ذمہ داری قبول کرکے استعفیٰ دیں، تو حکومتی ترجمان وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری حکومت اور متعلقہ وزیر کے دفاع میں سامنے آ گئے اور استعفے کا مطالبہ مسترد کر دیا۔
 ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے ڈہرکی ٹرین حادثے میں وزیر ریلوے اعظم سواتی سے استعفے کے مطالبے کو بے تکا قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وزیر کیا کر سکتا ہے، وزیر خامیاں اور اس کا حل بتاتا ہے، وزیر کی ہدایت پر عملدرآمد کے بعد حادثہ ہوگا تو وہ ذمہ دار بھی ہوگا۔‘
انہوں نے سابق وزیر ریلوے سعد رفیق کا نام لے کر کہا کہ ’ان کے گناہ پر اعظم سواتی استعفی دے دیں یہ بے تکی بات ہے۔ پچھلی حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ  لوگ اتنے سال حکمران رہے، کیا کرتے رہے۔‘

فواد چوہدری کے الزام پر خواجہ سعد رفیق نے مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر ویڈیو پیغام جاری کیا۔ انہوں نے ٹویٹ کیا کہ ’افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج وزیرداخلہ اور وزیراطلاعات نے اس حوالے سے براہ راست مجھ پر الزام عائد کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس حکومت کو آئے تین سال ہو گئے ہیں، دھیلے کا انہوں نے کام نہیں کیا، ریلوے کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے انہوں نے، خاص طور پر پچھلے وزیرریلوے نے تو تباہی مچا دی تھی۔‘
پاکستانی سوشل میڈیا صارفین بھی تواتر سے ہونے والے ٹرین حادثات پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔
ٹوئٹر ہینڈل مومنٹس اینڈ میموریز نے فواد چوہدری کو جواب دیتے ہوئے لکھا ’پچھلی بار جو ریل گاڑی میں سلنڈر پھٹنے کا واقعہ ہوا، بے شمار لوگ مارے گئے۔ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے کیا کیا گیا تھا؟ اس سے پہلے جو سانحات ہوئے اور اس کے بعد جو ہوئے، کوئی انکوائری کوئی برطرفی؟ ان تمام واقعات سے کچھ نہیں سیکھتے آپ لوگ؟ آپ بس ہر بار صرف افسوس ہی کریں گے؟

حکومت کی جانب سے انڈین ریلوے کا پاکستان ریلوے سے موازنہ کیے جانے کا ذکر کرتے ہوئے صارف وجیہہ لکھتی ہیں ’کل تک انڈیا کی ریلوے لائنز کا نام لے رہے تھے کہ موت کا گڑھ بن گئیں اور آج اپنا ہی حادثہ ہوگیا، ہمیں پہلے اپنے گریباں میں جھانکنا چاہیے، انسانی غلطیاں ہی ہیں یہ سب۔‘

صارف امیر عالم پاکستان ریلوے کی خستہ حالی پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’جناب نئی ٹرين سروس لائيں، دنيا اب مريخ پرجانے کى بات کر رہى ہے، ہم اسى دقيانوسى نظام میں چل رہے ہیں، چين سے معاہدہ کريں اور باقى دو سال میں يہ کام کر جائيں تو اگلا الیکشن جيتنے کے لیے اليکشن کمپين کى بھی ضرورت نہیں پڑے گى۔ نواز شریف ابھى تک موٹر وے پر ووٹ لے رہے ہیں، آپ کے لیے موقع ہے ريلوے۔‘

سید آذان شاہ جیلانی نے پاکستان ریلوے کے نظام کا موازنہ دوسرے ممالک کے ریلوے سسٹم سے کرتے ہوئے لکھا ’دنیا کا سب سے بڑا ریلوے نیٹ ورک روس، چین اور امریکہ کا ہے۔ دہائیاں گزر گئیں ان ملکوں سے کبھی کسی ریل حادثے کی خبر نہیں سنی۔ دنیا بھر میں ریل کا سفر سب سے زیادہ محفوظ تصور کیا جاتا ہے سوائے پاکستان کے، سات سالوں میں 100 سے زیادہ حادثات، خدا کی پناہ، نااہلی اور نالائقی کی انتہا ہے۔‘

شیئر: