Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران: صدارتی امیدوار ابراہیم رئیسی کی ’ہولناک زیادتیوں‘ کی داستان

ابراہیم رئیس پر الزام ہے کہ وہ بطور پراسیکیوٹر لوگوں کو سزا سناتے تھے۔ (فوٹو: روئٹرز)
ایسے وقت میں جب ایران میں 18 جون کو صدارتی انتخابات منعقد ہونے جا رہے ہیں، صدارتی امیدوار اور عدلیہ کے سربراہ ابراہیم رئیسی کے ہاتھوں اذیت اور بدسلوکی کا شکار ہونے والے ایرانی شہری بول پڑے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق ابراہیم رئیسی پر الزام ہے کہ انہوں نے سنہ 1988 میں ہونے والے ایران کے سیاسی قیدیوں کے قتل عام میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
ان پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ تہران کے قید خانوں ایون اور گوہردشت میں قائم نام نہاد ’ڈیتھ کمیشن‘ کے ممبر تھے۔
رپورٹس کے مطابق ابراہیم رئیسی بطور پراسیکیوٹر لوگوں کو سزا سناتے تھے۔ سنہ 1988 کے قتل عام کے دوران وہ صرف 21 سال کے تھے اور ان کی تعلیم و تجربہ بھی محدود تھا۔
ایران کی قومی مزاحمت کونسل (این سی آر آئی) کے ممبران نے ان تمام زیادتیوں کی تفصیلات بتائی ہیں جن کا انہیں سامنا کرنا پڑا۔

 ابراہیم رئیسی پر الزام ہے کہ انہوں نے سنہ 1988 میں ہونے والے ایران کے سیاسی قیدیوں کے قتل عام میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

منگل کو ایک پریس کانفرنس میں فریدہ گدرزی نے ہولناک زیادتیوں کی داستان سنائی جنہیں وہ سنہ 1980 کی دہائی میں برداشت کرتی رہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’سنہ 1983 میں مجھے مجاہدین تنظیم کی حمایت کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور تقریباً چھ سال مجھے ہمدان اور نہاوند کے قید خانوں میں رکھا گیا جہاں میں نے مجرم ابراہیم رئیسی کے گھناؤنے جرائم دیکھے۔‘
فریدہ کو جب گرفتار کیا گیا تو اس وقت وہ حاملہ تھیں اور انہوں نے اپنی اسیری کے دوران ہی بچے کو جنم دیا۔
انہوں نے بتایا کہ 24 ستمبر 1983 کی ایک ’دردناک یاد‘ 38 سال گزر جانے کے بعد آج بھی ان کے ذہن پر نقش ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ابراہیم رئیسی اور کچھ محافظ میرے سیل میں داخل ہوئے، میرے بیٹے کو اٹھایا جو صرف 38 دنوں کا تھا جبکہ وہ سویا ہوا تھا اور اسے ظالمانہ انداز میں زمین پر پھینک دیا۔ اس کی چیخوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انہوں نے اس کے کپڑے یہ کہتے ہوئے اتار دیے کہ وہ دستاویزات اور شواہد تلاش کر رہے ہیں۔‘

ایران کی قومی مزاحمت کونسل کے ممبران نے ان تمام زیادتیوں کی تفصیلات بتائی ہیں جن کا انہیں سامنا کرنا پڑا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

فریدہ گدرزی نے مزید بتایا کہ اگلے دن صبح آٹھ سے دن دو بجے مجھے اپنے بیٹے کے ساتھ عدالت لے جایا گیا اور تفتیش کی گئی۔ تفتیشی کمرے میں 10 سے زائد بے رحم اذیت پہنچانے والے افراد موجود تھے جن میں سے ایک ابراہیم رئیسی بھی تھے۔
’چھ گھنٹے تک جاری رہنے والی تفتیش کے دوران ان میں سے ایک نے میرے بیٹے کو مجھ سے چھین لیا اور میرے سامنے اسے پیچھے کی طرف تھپڑ مارے جبکہ وہاں موجود دیگر افراد قہقہے لگا رہے تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’رئیسی اس منظر کو دیکھ رہا تھے۔ میں نے اس تلخ یاد کا ذکر اس لیے کیا تاکہ یہ بتا سکوں کہ ہم سنہ 1988 کے قتل عام سے زندہ بچ جانے والے، کبھی بھی اس جرم اور سنہ 1980 کی دہائی میں ہونے والے دیگر جرائم کو نہ بھولیں گے نہ ان کی معافی دیں گے۔‘

شیئر: