Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چین کے مقابلے میں جی سیون کا ’گلوبل انفراسٹرکچر پلان‘ تیار

چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے پر 100 سے زائد ممالک نے دستخط کیے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
سات امیر ممالک پر مشتمل گروپ جی سیون نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے جواب میں گلوبل انفراسٹرکچر پلان بنایا ہے۔
روئٹرز کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے سینیئر اہلکار کا کہنا تھا کہ ’امریکہ جی سیون کے دوسرے قائدین پر زور دے گا کہ وہ چین میں زبردستی مشقت لیے جانے کے خلاف سخت ایکشن لیں۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’یہ صرف چین کا سامنا کرنے سے متعلق نہیں ہے بلکہ اب تک ہم نے کچھ ایسا متبادل نہیں کیا جو ہماری اقدار، معیار اور کاروبار کے انداز کو ظاہر کرے۔‘
چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ کھربوں ڈالر کا ہے جو صدر شی جن پنگ نے 2013 میں شروع کیا تھا اور جس میں ترقی اور سرمایہ کاری کے اقدامات شامل ہیں جو چین کو ایشیا سے یورپ اور آگے تک کنکٹ کرے گا۔
سو سے زائد ممالک نے اس منصوبے کے لیے  چین کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس میں ریلوے، سپورٹس، بڑی سڑکوں اور دوسرے انفراسٹرکچر کی تعمیر کے منصوبے شامل ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق پچھلے سال کے وسط تک 3.7 کھرب ڈالر کے 2600 سے زائد منصوبے اس پروگرام میں شامل ہوئے حالانکہ چینی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ کورونا وبا  کی وجہ سے 20 فیصد منصوبے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے مارچ میں کہا تھا کہ انہوں نے برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن، جو جی سیون کی سربراہی اجلاس کی میزبانی کر رہے ہیں،  کو تجویز دی ہے کہ جمہوری ممالک کو اس منصوبے کے مقابلے میں اپنی سکیم تیار کرنی چاہیے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے مارچ میں کہا تھا کہ جمہوری ممالک کو اپنی سکیم تیار کرنی چاہیے (فوٹو: اے ایف پی)

  امریکی اہلکار کا کہنا تھا کہ ’اب تک مغرب چینی حکومت میں شفافیت کی کمی، ماحولیاتی اور مزدوری کے لحاظ سے ناقص معیار اور جابرانہ انداز کے حوالے سے مثبت متبادل پیش کرنے میں ناکام رہا ہے جس نے کئی ممالک کو برے حالات میں دھکیلا۔‘
ان کے مطابق ’کل ہم جی سیون پارٹنرز کے ساتھ گلوبل انفراسٹرکچر پروگرام کا اعلان کرنے جا رہے ہیں جو صرف بیلٹ اینڈ روڈ کا ہی متبادل نہیں ہو گا۔‘

برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن جی سیون کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کریں گے (فوٹو: اے پی)

مذاکرات میں امریکی صدر بائیڈن دوسرے قائدین پر زور دیں گے کہ ’وہ واضح کریں کہ جبری مشقت انسانی وقار کے منافی اور چین کی غیر منصفانہ معاشی مسابقت کی ایک قابل مذمت مثال ہے اور دکھائیں کہ وہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سنجیدہ ہیں۔
 اہلکار نے اتوار کو سربراہی اجلاس کے آخر میں جاری اعلامیے کے حوالے سے بتایا کہ ’ہم سنکیانگ جیسے علاقوں پر زیادہ زور دے رہے ہیں جہاں پر جبری مشقت لی جا رہی ہے اور یہاں ہم نے جی سیون کی حیثیت سے اپنی اقدار کا اظہار کرنا ہے۔‘

شیئر: