چین کی جانب سے تبت میں ایک بڑے ڈیم کی تعمیر سے پریشان انڈیا نے ممکنہ خطرات سے بچنے کے لیے منصوبہ بندی شروع کر دی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ میں منصوبے سے واقفیت رکھنے والے چار سورسز کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ انڈین حکام کو خدشہ ہے کہ چینی ڈیم بننے کے بعد خشک موسم میں دریا کے بہاؤ میں 85 فیصد کمی آ جائے گی۔
انڈیا سنہ 2000 کے اوائل سے تبت کے اینگسی گلیشیئر سے آنے والے پانی پر کنٹرول کے لیے غور کرتا آ رہا ہے، جس سے چین، انڈیا اور بنگلہ دیش میں ایک ارب کے قریب افراد فائدہ اٹھاتے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
’انڈیا چین سرحدی تنازع بڑی لڑائی کا سبب بن سکتا ہے‘Node ID: 515966
تاہم منصوبہ بندی ہماچل پردیش میں عوامی مزاحمت کی وجہ سے رائیگاں جاتی رہی ہے کیونکہ وہاں کے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر وہاں ڈیم بنایا گیا تو ان کے کئی دیہات بہہ جانے کے خدشات پیدا ہوں گے اور ان کا طرز زندگی متاثر ہو گا۔
دوسری جانب چین نے دسمبر میں دنیا کے سب سے بڑے ڈیم کا اعلان کیا جو دریائے یارلونگ زینگو پر انڈیا سے ملحقہ صوبے میں بنایا جائے گا۔
اس اعلان نے نئی دہلی کے خدشات کو مزید بڑھا دیا کیونکہ چین اس کا دیرینہ حریف بھی ہے اور اروناچل پردیش کے کچھ علاقوں پر اپنی ملکیت کا دعویٰ رکھتا ہے۔

انڈیا کو یہ خدشہ بھی ہے کہ دریا پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اس کے ملکیتی دعوؤں کو تقویت ملنے کا امکان ہے کیونکہ آگے جا کر یہ دریا انڈیا میں شامل ہوتا ہے اور اسے دریائے براہما پترا کے نام سے جانا جاتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انڈیا کی سب سے بڑی ہائیڈل کمپنی نے مئی میں کچھ سامان پولیس کی کڑی نگرانی میں اپر سیانگ کے ملٹی پرپز سٹوریج ڈیم کی سائٹ پر منتقل کیا تھا اور اگر یہ تعمیر ہوا تو انڈیا کا سب سے بڑا ڈیم ہو گا۔
دو سورسز نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انڈیا کے سینیئر حکام اجلاسوں میں رواں برس کام کی رفتار تیز کرنے پر زور دے رہے ہیں جن میں سے ایک وزیراعظم نریندر مودی کے دفتر میں منعقد ہوا۔
روئٹرز کے مطابق چار ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ دہلی کے خدشات حکومت کے ایک نئے تجزیے میں شامل کیے گئے ہیں۔

دوسری جانب بیجنگ نے ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے زیادہ معلومات جاری نہیں کی ہیں مگر انڈیا کے اداروں بشمول سینٹرل واٹر کمیشن کا کہنا ہے کہ جولائی میں منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور اس پر ایک کھرب 70 ارب ڈالر خرچ ہو گا۔
دستاویز کے مطابق دہلی کا اندازہ ہے کہ ڈیم کی تعمیر سے بیجنگ 40 ارب کیوبک میٹر پانی کا رخ موڑنے کے قابل ہو جائے گا یا پھر ملک میں آنے والے پانی کے ایک تہائی سے بھی زائد پانی پر قابو پا لے گا۔
اس کا زیادہ اثر خشک مہینوں کے دوران سامنے آنے کا امکان ہے جب درجہ حرارت زیادہ ہوتا ہے اور انڈیا کے کئی علاقوں میں زمینیں خشک سالی کا شکار ہو جاتی ہیں۔
اپر سیانگ منصوبہ 14 بی سی ایم کی سٹوریج کی گنجائش کے ساتھ ان خدشات کو کم کرے گا اور خشک موسم میں مطلوبہ پانی بھی فراہم کیا جا سکے گا۔
رپورٹ کے مطابق اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ پانی کی فراہمی اور کھیتی باڑی پر انحصار کرنے والے شہر گوہاٹی کو سپلائی میں 11 فیصد کمی آئے گی۔
سورسز کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کی وجہ سے انڈیا چین کی جانب سے چھوڑے جانے والے پانی کے بہاؤ کو کم کرنے کی صلاحیت بھی حاصل کر لے گا۔