Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طالبان کے لیے کابل حکومت کو گرانا ممکن نہیں، امریکی ماہرین

افغان سکیورٹی فورسز کے ہتھیار ڈالنے کے بعد کئی ضلعے طالبان کے قبضے میں گئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
افغان امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد طالبان ایک سال کے اندر کابل پر قابض ہو سکتے ہیں تاہم کابل حکومت کو گرانا فوری طور پر ممکن نہیں ہے کیونکہ کابل کا انحصار ایک زیادہ بہتر افغان دفاعی فورس پر ہوگا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وقت کے ساتھ پریشانی بڑھ رہی ہے کہ طالبان جنگجو ایک مرتبہ پھر جنگ زدہ ملک کا اقتدار حاصل کر سکتے ہیں۔
افغانستان میں برسوں کا تجربہ رکھنے والے امریکی تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ ناقص قیادت، کرپشن اور افغان سکیورٹی فورسز میں نسلی بنیادوں پر تقسیم وہ عوامل ہیں جن سے طالبان فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔
امریکی افواج کے انخلا کے اعلان کے بعد طالبان جنگجوؤں نے افغانستان کے چار سو اضلاع میں سے درجنوں اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔
جمعے کو افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی اپنے امریکی ہم منصب جوبائیڈن سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کریں گے۔
امریکی اخبار دی وال سٹریٹ جنرل نے بدھ کو کہا ہے کہ ایک نئے امریکی انٹیلجنس رپورٹ کے مطابق امریکی افواج کے انخلا کے بعد چھ سے 12 مہینوں کے دوران طالبان ملک کے دارالحکومت کابل کا کنٹرول حاصل کر سکتے ہیں۔

طالبان کو روکا جا سکتا ہے

انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے انڈریو واٹکنز کا کہنا ہے کہ افغان حکومت جس جس طرح علاقائی نقصانات کا سامنا ہوا اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ کابل حکومت کو گرانا ممکن نہیں، طالبان ایسی فوجی طاقت نہیں جس کو روکا نہ جاسکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’طالبان جنگجوؤں نے جن ضلعوں پر قبضہ کیا ہے ان کی سٹریٹیجک یا فوجی اہمیت کم ہے۔‘

امریکہ اور طالبان کے درمیان امن مزاکرات کے کئے دور دوحہ میں ہو چکے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پینٹاگان کے سابق عہدیدار اور سی این اے کنسلٹنسی میں افغان سکیورٹی امور کے ماہر کارٹرملکیسیئن کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں اس بات کو کا امکان کم ہی ہے کہ طالبان کابل میں داخل ہو جائیں گے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ ایسا ایک سال کے عرصے میں ممکن ہے کیونکہ اس وقت علاقائی دارالحکومتوں کو خطرہ نہیں۔
’اگر آپ کندھار اور مزار شریف جیسے بڑے شہروں کا کنٹرول جاتا ہوا دیکھتے ہیں تو پھر میں کابل حکومت کے گرنے کا بارے میں پریشان ہونا شروع کر دوں گا۔‘
افغانستان کے لیے امریکہ کے سابق نمائندہ خصوصی اور ریند کارپوریشن میں تجزیہ کار جیمز ڈوبنز کا کہنا ہے کہ افغانستان میں لڑائی میں اضافہ ہوگا۔
انہوں نے کہا طالبان کے پاس ایسے کچھ عوامل ہیں جن سے وہ صرف دور دراز علاقوں میں فائدہ اٹھا سکتے ہیں کیونکہ ان کے حامی ان ہی علاقوں میں موجود ہیں۔
طالبان کے لیے 1996 کے مقابلے میں ملک کے شہر پر کنٹرول حاصل کرنا اب زیادہ چیلنج ہے۔ ملک میں اب زیادہ آبادی ہے، دیہاتی علاقے شہری علاقوں میں بدل چکے، تعلیم میں بہتری آئی، ملک اب بہتر طریقے سے جڑا ہے اور انتظام کے حوالے سے زیادہ پیچیدہ ہوگیا ہے۔

افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی جمعے کو امریکی صدر جوبائیڈن سے ملاقات کریں گے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

جمنز ڈوبنز کا کہنا ہے کہ ’شہروں میں ان کے زیادہ حامی نہیں جہاں تمام انفراسٹرکچر موجود ہے۔‘
’کابل اب پانچ ملین آبادی کا شہر ہے۔ یہ ویسا نہیں جب طالبان نے اس پر قبضہ کیا تھا اور میرے خیال میں اس شہر پر قبضہ کرنے کے لیے ان کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا ہوگا۔‘
انڈریو واٹکنز کا کہنا ہے کہ افغان سکیورٹی فورسز کو طاقت اور مزاحمت دکھانا ہوگی۔

امریکی افواج کا انخلا ستمبر تک مکمل ہو ہو جائے گا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

مذاکرات میں بالادستی حاصل کرنے کی کوشش

کارٹرملکیسئن کا کہنا ہے کہ طالبان کی توجہ حکومت پر عوامی حوصلے اعتماد کو پست کرنا ہے کیونکہ مستقبل کی حکومت کے لیے مذاکرات کے عمل میں بالادستی حاصل کر رہے ہیں۔
’وہ نہیں چاہتے کہ خود کو لڑائی میں مصروف رکھیں یا باقی ملک کو فتح کریں۔ وہ یہ دیکھنا چاہتے کہ افغان حکومت گرے اور وہ آگے بڑھیں۔‘

شیئر: