Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومت اور اپوزیشن انتخابی اصلاحات کے بلوں پر نظرثانی پر متفق

کمیٹی میں حکومتی اتحاد اور اپوزیشن کو برابر نمائندگی دی گئی ہے (فوٹو: قومی اسمبلی)
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان قومی اسمبلی سے پاس کیے گئے انتخابی اصلاحات سے متعلق بلوں پر نظر ثانی کرنے پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ 
اس پیش رفت کے بعد قومی اسمبلی کے سپیکر نے حکومت اور اپوزیشن کے سینیئر رہنماوں پر مشتمل کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔ 14 رکنی کمیٹی برائے قانون سازی میں حکومت اور اپوزیشن کو برابر نمائندگی دی گئی ہے۔
تحریک انصاف کی جانب سے وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیر منصوبہ بندی اسد عمر اور وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان کمیٹی میں شامل ہیں۔ حکومت کی اتحادی جماعتوں کی نمائندگی وزیر برائے تعمیرات چوہدری طارق بشیر چیمہ، وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور  خالد حسین مگسی کریں گے۔
اپوزیشن کی جانب سے مسلم لیگ ن کے شاہد خاقان عباسی، سردار ایاز صادق،  رانا ثناءاللہ، پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر، شازیہ مری، ایم ایم اے کی شاہدہ اختر علی اور بی این پی کے آغا حسن بلوچ کمیٹی میں شامل ہوں گے۔
کمیٹی کی تشکیل کے حوالے سے جاری کی گئی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ سپیکر نے پارلیمانی رہنماؤں کی مشاورت کے بعد یہ کمیٹی تشکیل دی ہے جو ایوان کی جانب سے بھیجے گئے معاملات کے لیے اپنے ٹی او آرز کو خود حتمی شکل دے گی۔
سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اس حوالے سے تصدیق کی ہے کہ اپوزیشن کے مطالبے پر یہ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔
پارلیمنٹ ہاوس میں اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ ایوان میں گزشتہ دنوں جو قانون سازی ہوئی ہے اس کا از سر نو جائزہ لینے کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے۔ اس لیے اب حکومت اور اپوزیشن مل کر اس کا جائزہ لیں گی۔‘

اس سوال پر کہ کیا اپوزیشن کے مطالبے پر انتخابی اصلاحات سے متعلق قانون سازی پر بھی نظرثانی ہو گی تو سپیکر نے کہا کہ بنیادی مطالبہ ہی یہی ہے۔ اب کمیٹی پر ہے کہ وہ اس پر متفق ہوتی ہے یا نہیں۔‘
سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی مرتضی جاوید عباسی نے اردو نیوز کے استفسار پر بتایا کہ ’حکومت اپوزیشن نے تیزی سے منظور کیے گئے بلوں بالخصوص اانتخابی اصلاحات سے متعلق بلوں کو دوبارہ زیر غور لانے اور ان میں ترامیم کا طریقہ کار ڈھونڈنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس وقت وہ بل سینیٹ کی ملکیت ہیں۔ ممکن ہے کہ سینیٹ یہ بل واپس قومی اسمبلی کو بھیج دے اور پھر ان کو اس کمیٹی میں زیر بحث لانے کے بعد منظور کیا جائے۔‘
کچھ عرصہ قبل اپوزیشن نےسپیکر کے کردار پر سوالیہ نشان اٹھاتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ سپیکر کی قائم کردہ کسی کمیٹی کا حصہ نہیں بنیں گے۔ اب جب سپیکر نے اپوزیشن رہنماوں کو شامل کرتے ہوئے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے تو کیا اپوزیشن اس کا حصہ ہوگی؟
اس حوالے سے مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا کہ ’یہ کمیٹی ہمارے مطالبے پر بنی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے ہماری تجاویز اور ترامیم کو زیر غور لایا جائے۔ حکومت نے پہلے غیر قانونی طور پر قانون سازی کی۔ اس لیے اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔‘
مریم اورنگزیب نے کہا کہ ’الیکٹرونک ووٹنگ، حلقہ بندیوں، ووٹر فہرستوں اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے اور اس کے طریقہ کار کے حوالے سے اپوزیشن کا اپنا موقف ہے۔ اس کے لیے اپنی تجاویز دیں گے اور اگر حکومت نے ہماری تجاویز پر مثبت طریقے سے بات کی تو بات چیت کا سلسلہ جاری رکھا جا سکتا ہے۔‘

انتخابی اصلاحات سے متعلق قانون سازی پر بھی نظرثانی ہو گی (فوٹو: قومی اسمبلی)

ان کے مطابق ’حکومت نے یک طرفہ قانون سازی کے ذریعے انتخابات سے متعلق امور الیکشن کمیشن سے لے کر نادرا یا کسی بھی اور ادارے کو دینے کی ترمیم کی ہے۔ یہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے جو قانون میں ترمیم سے ختم نہیں کیا جا سکتا بلکہ آئینی ترمیم لانا پڑے گی جس کے لیے حکومت کو دو تہائی اکثریت درکار ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’انتخابی اصلاحات کا بنیادی مقصد ڈسکہ جیسے واقعات کو روکنا اور عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے کے عمل کو روکنا ہے۔ اگر حکومت ایسی اصلاحات چاہتی ہے تو اپوزیشن متفقہ قانون سازی میں ساتھ دینے کو تیار ہے۔‘ 
یاد رہے کہ حکومت نے 10 جون کو قومی اسمبلی میں قواعد معطل کرتے ہوئے 21 بل منظور کرا لیے تھے۔ ان بلوں میں انتخابی اصلاحات اور انڈین جاسوس قرار دیے جانے والے کلبھوشن جادھو کی سزا کا موثر جائزہ لینے کا بل بھی شامل تھا۔ 
اپوزیشن کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی انتخابی قوانین میں ترامیم میں قانونی غلطیوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔

شیئر: