Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وعدہ، وعید اور عید میں مشترک کیا؟

’وعدہ‘ یک طرفہ ہوتا ہے اور اس کی پابندی بھی وعدہ کرنے والے ہی پر لازم آتی ہے (فوٹو: پکسابے)
روئے سخن ہے اس کا خریدار کی طرف 
قصاب دے رہا ہے جو بِلی کو گالیاں 
کسی بھی دوسری بات سے پہلے نوٹ کرلیں کہ مصرع ثانی میں وارد 'جوبلی' دو الگ الفاظ ہیں انہیں ہرگز 'Jubilee' نہ پڑھا جائے۔ اس میں پہلا لفظ  'جَو' بمعنی 'اگر'  ہے جب کہ 'بلی' وہی جانور ہے جسے خواب میں  کبھی چھیچھڑے دکھائی دیتے ہیں تو کبھی اُس کے بھاگوں چھینکا ٹوٹ گرتا ہے۔ 
اب 'قصاب'  کا بیاں ہوجائے کہ عید قرباں پر اس کی ڈیمانڈ قربانی کے جانوروں سے زیادہ اور نخرے نئی نویلی دلہن سے سوا ہوتے ہیں جب کہ تُند مزاجی اس پر مستزاد ہے۔ 
لفظ 'قصاب' کے املا پر اہل زبان متفق ہیں مگر اس کے مترادف لفظ  'قصائی' کے املا میں دبستان دہلی و لکھنؤ میں اختلاف ہے۔ دہلوی 'قصائی' لکھتے ہیں تو لکھنؤی تحریر میں 'قسائی' لاتے ہیں۔ 
جو 'قصائی' کے قائل ہیں وہ اس کی نسبت 'قصاب' سے جوڑتے ہیں۔ اب  'قسائی' لکھنے والوں کی بھی سنیں جو اسے  'قساوت' سے مشتق بناتے ہیں۔ قساوت کے معنی سنگ دل، بے رحم اور ظالم ہیں۔ چوں کہ بُغدا، چُھرا اور کٹار قصاب کے ہتھیار اور جانوروں کا لہو بہانا اُس کا کاروبار ہے اس لیے 'قساوت' اس کے مزاج میں در آئی ہے۔  یوں 'قسائی' قصاب کی صفت بن جاتی ہے۔ 
 اب اگر گرائمر کی رو سے قساوت سے 'قسائی' درست نہ بھی ہو تو بھی الفاظ و معنی کے اشتراک سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ 
خیر 'قصائی' ہو یا 'قسائی' بروز عید وہ گوشت بنانا کر چلتا ہوگا۔ اس گوشت سے نوع بہ نوع پکوان خاتونِ خانہ (یا کہیں کہیں مرد حضرات بھی) تیار کریں گے اور اس تیاری میں 'مصالح' کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ 
کھانوں کا ذائقہ بڑھانے اور دسترخوان مہکانے والے 'مصالح' کے املا میں بھی اختلاف ہے۔ اہل دلی لفظ 'مَصالح' کو درست جانتے ہیں تو اہل لکھنؤ 'مسالا' صحیح گردانتے ہیں۔ 
دلی والوں کی ایک دلیل یہ ہے کہ اپنے مخصوص معنی میں 'مصالح' فارسی میں بھی ایسے ہی لکھا جاتا ہے۔ یعنی پوچھنا ہے تو اہل فارس سے پوچھو کہ ہمارے مطبخ میں یہ 'مصالح' وہیں سے آیا ہے۔ 
دوسری دلیل کے مطابق چونکہ یہ کھانوں میں پڑ کر مختلف المزاج اشیاء کے درمیان 'مصالحت' پیدا کرتا ہے اس لیے 'مصالح' کہلاتا ہے۔ دلی والے اس 'مصالح' کو مصالح دار، گرم مصالح، حلیم مصالح اور اچار مصالح وغیرہ کے سے مرکبات میں بے دھڑک استعمال کرتے ہیں۔ 
لفظ 'مصالح' عربی الاصل ہےاور عربی زبان میں 'مصالح' لفظ 'مصلحت' کی جمع ہے۔ پھر یہ لفظ عربی میں قطعی طور پر اس معنی میں استعمال نہیں ہوتا جن مخصوص معنی میں فارسی اور اردو میں برتا جاتا ہے۔ یوں یہ صوری طور پر عربی ہونے کے باوجود معنوی اعتبار سے  فارسی کا لفظ بن گیا ہے۔ 
فارسی اور اردو میں 'مصالح' فقط کھانوں تک محدود نہیں بلکہ اس کے معنی میں کسی بھی چیز کی تیاری سے متعلق ضروری لوازمات بھی شامل ہیں۔ اس لیے تعمیراتی چونا گارا، کپڑوں کا گوٹا کناری اور کتابوں پر مشتمل ضروری تحقیقی مواد بھی 'مصالح' کی تعریف میں داخل ہے۔   
اس مصالح کی ایک صورت 'مصالحہ' بھی دیکھنے میں آتی ہے، اول تو 'مصالح' کی موجودگی میں 'مصالحہ' غیر ضروری ہے اور دوسرا یہ کہ 'مصالحہ' اصلاً 'مصالحت' ہی کی دوسری صورت ہے اور معنی دو لڑنے والوں میں صلح و صفائی کروانے کے ہیں۔ 
اب بات ہوجائے 'مسالا' کی جس کے متعلق دبستان لکھنؤ کی ایک دلیل یہ ہے کہ یہ لفظ اصلاً 'مصالح' ہی تھا جسے 'مسالا' بنا لیا گیا ہے۔اس حوالے سے ایک دور کی کوڑی یہ ہے کہ 'مسالا' لفظ 'سِل' سے نکلا ہے، چونکہ اسے سِل پر مسلا جاتا ہے اس لیے یہ 'مسالا' کہلاتا ہے۔ 
  یہ بات جتنی معقول لگتی ہے درحقیقت اتنی ہی غیر معقول ہے کہ اول تو اردو اور ہندی میں لفظوں کا اشتقاق عربی قاعدے سے جدا ہے مثلاً عربی میں رحم سے رحیم و مرحوم اور فہم سے فہیم و مفہوم بنتے ہیں مگر اس قاعدے کے مطابق اردو میں سِل سے مَسل یا مسالا نہیں بنتا۔  
دوسری بات یہ کہ سِل پر مسالا پیسا جاتا ہے مسلا نہیں جاتا ہے۔ یوں 'سِل' سے 'مسالا' بنانے والوں کی دلیل لائق التفات نہیں رہتی۔ 
لفظ 'مصالح' کو 'مسالا' لکھنے کے حوالے سے ایک رائے یہ بھی ہے کہ اردو میں رائج عربی حروف تہجی 'ث اورص' پر مشتمل الفاظ کو پاک و ہند میں عام طور پر بصورت 'س' ادا کیا جاتا ہے، مثلاً لفظ 'صابر و ثمر' کا اردو تلفظ 'سابر و سمر' کیا جاتا ہے، ایسے میں مصالح کو مسالا لکھیں تو یہ اپنے تلفظ کے مطابق ہوجاتا ہے۔ 
  اردو میں عربی و فارسی کے الفاظ کی تعداد غیر معمولی ہے۔ اگر تلفظ کے مطابق املا کا رواج چل پڑا تو املا کے باب میں غدر مچ جائے گا۔ بات صرف 'ث، س اورص' تک محدود نہیں کہ حروف تہجی 'ذ، ز، ض اور ظ' بھی ہم آواز ہیں مگر عربی میں ان چاروں الفاظ کا تلفظ جدا ہے جب کہ اردو میں یہ تمام الفاظ 'ز' کی آواز دیتے ہیں مثلاً  ہم 'ذاکر، ضامن اور ظاہر' لکھتے ہیں اور انہیں بالترتیب 'زاکر ، زامن اور زاہر' پڑھتے ہیں۔
پھر یہی کچھ معاملہ 'ح، ہ اور ھ' کا ہے۔ ایسے میں بہتر یہی ہے کہ اس معاملے کو نہ چھیڑا جائے، تلفظ خواہ کچھ بھی ہو لفظوں کو ان کی اصل کے مطابق رہنے دیا جائے۔ رہی بات یہ کہ لفظ 'مصالح' درست ہے یا 'مسالا' تو اس کو ہم قارئین کے ذوق پر چھوڑتے ہیں۔ 
 

شیئر: