Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا وائرس کے بعد شادیاں پہلے جیسی نہیں رہیں

کچھ جوڑے اپنی شادی کی تقریب کو کھلی فضا میں رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ (فوٹو: سیدیتی میگزین)
کورونا وائرس کے پھیلنے کے بعد حکومتوں کی جانب سے لگائے جانے والی پابندیوں سے معاشرتی رسومات اور روایات بھی بدل گئی ہیں۔
ان رسوم ورواج میں شادی کی تقریبات سرفہرست ہیں کیونکہ یہ لوگوں کے جمع ہونے کی سب سے بڑی جگہ ہوتی ہے یہاں مختلف جگہوں کے لوگ اور خاندانوں کے افراد ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں۔
بڑے افراد بچوں کو بوسہ دیتے ہیں جس کی وجہ سے کورونا وائرس پھیلنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔
سعودی میگزین سیدتی نے برائڈز ویب سائٹ پر شادیوں کے حوالے سے شائع ایک مضمون کا حوالہ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس سے قبل شادی کی تقریب کا انعقاد مالی لحاظ سے ایک مشکل کام تھا کیونکہ شادی میں ایسے نئے نئے رواج داخل ہوچکے تھے جو بہت مہنگے تھے۔ کسی عام شخص کے لیے شادی کرنا بہت مشکل ہو گیا تھا۔
کورونا وائرس کے پھیلنے کے بعد شادی کے انتظامات اور پروٹوکول میں خاصا بدلاؤ آ گیا ہے۔ ہم ذیل میں کورونا وائرس کے شادی کی تقریبات پر اثرات کو واضح کرتے ہیں۔

گھروں میں شادیوں کا رواج

کورونا کے بعد شادی ہالز کی بندش کی وجہ سے زیادہ تر جوڑے اپنی شادی کی تقریب قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کی ایک محدود تعداد کے ساتھ گھر میں ہی منعقد کرنے لگے ہیں۔

 ٹینٹ میں منانا

کچھ لوگوں نے جن کے پاس کھلی جگہ کا انتظام نہیں ہے انہوں نے شادیوں کو ٹینٹ میں کرنا شروع کر دیا ہے۔ خصوصا جن کے گھر میں مناسب جگہ نہیں ہے یا وہ بند ہالوں سے دور ہیں۔
شادی کی تقریبات کے ایک آرگنائزر کا کہنا ہے کہ ٹینٹ کا خیال نہ صرف زیادہ تحفظ فراہم کرتا ہے بلکہ جوڑے کو اپنی تقریبات کے لیے خوبصورتی کے لامحدود امکانات فراہم کرنے کا بھی موقع فراہم کرتا ہے اور ڈیزائن اور منصوبہ سازی کے اختیارات کی بدولت 150 افراد یا اس سے زیادہ افراد کی جگہ بھی بن جاتی  ہے۔

لوگ اب شادی ہالز کے بجائے گھروں پر بھی شادیاں کرتے ہیں۔ (فوٹو: پکسلز)

آؤٹ ڈور پارٹی

کچھ جوڑے اپنی شادی کی تقریب کو کھلی فضا میں رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس سے ہر ایک اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرتا ہے اور اسے گھر میں پارٹی سے زیادہ دوستوں اور کنبہ والوں کو مدعو کرنے کا موقع ملتا ہے۔

ورچوئل شادیاں

ٹیکنالوجی نے اب شادیوں میں بھی مداخلت کی ہے۔ اب ورچوئل شادی کا تصور سامنے آیا ہے۔ کچھ جوڑوں نے کورونا کے باعث شادی کی تقریب ورچوئل انداز میں بھی کی ہے۔ جس میں مہمان دور سے شریک ہوتے ہیں۔

کھانے میں ترمیم کریں

حفاظت کے نئے پروٹوکول کے ساتھ عشائیہ پیش کرنے میں ترمیم کی گئی ہے کیونکہ بوفے کے بجائے اب ٹیبل پر ہر ایک کو پیش کیے جانے والے کھانے کو ترجیح دی گئی ہے تاکہ معاشرتی فاصلے کو یقینی بنایا جا سکے اور کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔

شادیوں میں اب بوفے کی بجائے ٹیبل پر کھانے کو ترجیح دی گئی ہے۔ (فوٹو: پکس فیول)

فرنیچر اور سامان آن لائن خریدیں

پابندیوں کی وجہ سے نوبیاہتا جوڑے کے لیے فرنیچر، زیورات اور کپڑوں کی دکانوں پر آزادانہ نقل و حرکت ممکن نہیں رہی ہے اب اس کا متبادل انٹرنیٹ بن گیا ہے۔ نوبیاہتا جوڑے انٹرنیٹ پر اپنے گھر کے لیے فرنیچر ڈیزائن کرتے ہیں اور سامان کا انتخاب کرتے ہیں۔ آن لائن سٹور بھی دکانوں کی طرح کافی  تعداد میں وجود میں آ چکے ہیں۔

شادی کا پہلا مہینہ

یہ مشہور ہے کہ نیا جوڑا شادی کا پہلا مہینہ اپنے ملک کے اندر یا بیرون ملک سفر میں گزارتا ہے۔ لیکن عالمی سطح پر لاک ڈاؤن اور ہوائی اڈوں کی بندش کے ساتھ ، ملک سے باہر وقت گزارنا مشکل بلکہ ناممکن ہوگیا ہے۔ ایسے بین الاقوامی سفر کی منصوبہ بندی کرنے والے بہت سے نئے جوڑوں نے اپنی توجہ گھر میں محدود کر لی ہے۔

ماسک

کورونا کے زمانے میں دلہن کا ماسک  پہننا ایک معمول بن گیا ہے۔ جس پر فیشن ڈیزائنرز نے بھی توجہ دی ہے۔ اب دلہن کے ماسک کو اس کےعروسی جوڑے کے مطابق ڈیزائن کیا جاتا ہے۔
فیشن ڈیزائنرز نے دولہے کے لیے ماسک کے ڈیزائن کو بھی مختلف شکلوں میں تیار کرنے میں مہارت حاصل کر لی ہے۔ اس کے علاوہ خواتین لباس کے رنگ کے مطابق مختلف شکلوں اور رنگوں میں ماسک پہنتی ہیں۔

وبا کے دنوں میں دلہن کپڑوں کی طرح ایک جیسے ماسک کو ترجیح دینے لگی ہیں۔ (فوٹو: پکس ہائیو)

مہمانوں کی تعداد

احتیاطی تدابیر اور معاشرتی دوری کی پالیسی کی تعمیل میں شادیوں کی تقریبات میں شرکت کے لیے مہمانوں کی تعداد کم کر دی گئی ہے، اب یہ خاندان کے افراد اور قریبی دوستوں تک محدود ہو گئی ہے حکومتوں نے جہاں تعداد کو محدود کیا ہے، وہی ماسک پہننے اور  فاصلہ برقرار رکھنے سمیت تمام احتیاطی تدابیر کے اطلاق پر عمل کرنے کو ضروری قرار دیا ہے۔

کم خرچے والی تقریبات

وبا کی وجہ سے نافذ حالات میں بہت سارے لوگوں نے معاشی طور پر دباؤ ڈالنے والی بہت سی عادتوں اور نئی روایات سے مناسب طریقہ سے چھٹکارا پایا، جو کئی سالوں سے مسلط ہو چکا تھا۔ خصوصا ایسے افراد جن کے لیے شادی کرنا مشکل ہوچکا تھا البتہ پرانے رسم و رواجوں کو ترک کرنا جو طویل عرصے سے لوگوں میں رچ بس چکے تھے انہیں چھوڑنا کوئی آسان نہیں تھا۔

شیئر: