Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طالبان کی ترکی کو کابل ایئرپورٹ پر فوجی رکھنے پر وارننگ

ترکی کے افغانستان میں 500 سے زائد فوجی اہلکار موجود ہیں (فوٹو: روئٹرز)
طالبان نے ترکی کو کابل ایئرپورٹ کی سکیورٹی کے لیے افغانستان میں اپنے کچھ فوجی اہلکار رکھنے کے فیصلے پر خبردار کیا ہے کہ جو ملک بھی ایسا کرے گا اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جائے گا جیسا ایک ’قابض‘ کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق نیٹو کے رکن ترکی کے افغانستان میں 500 سے زائد فوجی اہلکار موجود ہیں جن میں سے کچھ سکیورٹی فورسز کو تربیت دے رہے ہیں جبکہ دیگر حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔
طالبان کے ایک ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’ترکی گذشتہ 20 سال سے نیٹو کے ساتھ افغانستان میں رہ رہا ہے اور اگر وہ اب بھی رہنا چاہتا ہے تو ہم بغیر کسی شک و شبے کے اسے ایک قابض تصور کریں گے اور اس کے خلاف کارروائی کریں گے۔‘
نیٹو کے واحد مسلم رکن ہونے کی وجہ سے افغانستان میں طالبان اور کسی دوسرے شدت پسند گروہ کی جانب سے شاذ و نادر ہی اس کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔ ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ طالبان ہمیشہ سے ترکی کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں رہا ہے تاہم انہوں نے انقرہ کی ایئرپورٹ کی سکیورٹی کے لیے پیش کی گئی تجویز کو مسترد کیا ہے۔

وزارت دفاع کے ترجمان نے بتایا کہ کابل ایئرپورٹ مین ایک فضائی دفاعی نظام نصب کیا گیا ہے تاکہ راکٹ حملوں کو روکا جائے (فوٹو: روئٹرز)

’ترکی اور ہمارے درمیان بہت کچھ مشترک ہے اور وہ مسلمان ہیں لیکن اگر وہ مداخلت کریں گے اور اپنے فوجی رکھیں گے تو وہ ذمہ دار ہوں گے۔‘
جمعے کو ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے کہا تھا کہ انقرہ کا واشنگٹن کے ساتھ ایک معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت نیٹو کے انخلا کے بعد کابل ایئرپورٹ کی سکیورٹی کے لیے ترکی کے کچھ فوجی اہلکار افغانستان میں تعینات رہیں گے۔
اردوغان نے نو جولائی کو بتایا تھا کہ ’ہمارے وزیر خارجہ کی اپنے امریکی ہم منصب سے ملاقات ہوئی اور ہماری امریکہ اور نیٹو کے ساتھ حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے مستقبل پر بات چیت ہوئی۔‘
ایئرپورٹ کی سکیورٹی عسکری اور سویلین پروازوں کے لیے بہت اہم ہوتی ہے اور اسے افغانستان میں سفارتکاروں اور بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے لیے ایک محفوظ گزرگاہ سمجھا جاتا ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ طالبان ہمیشہ سے ترکی کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں رہا ہے (فوٹو: روئٹرز)

انقرہ کا کہنا ہے کہ وہ تعاون کے بغیر یہ مشن سرانجام نہیں دے سکتا اور اسے مزید فوجی اہلکاروں کی ضرورت ہوگی۔
عرب نیوز نے جب پیر کو حکومتی عہدیداروں سے رابطہ کیا تو انہوں نے ترکی کے اس فیصلے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ تاہم وزارت دفاع کے ترجمان نے بتایا کہ کابل ایئرپورٹ میں ایک فضائی دفاعی نظام نصب کیا گیا ہے تاکہ راکٹ حملوں کو روکا جائے۔
فواد امان نے کہا کہ ’یہ سسٹم جسے دنیا کے دیگر حصوں میں بھی آزمایا گیا ہے، کابل ایئرپورٹ پر راکٹ حملوں کو موثر طریقے سے ناکام بنا دے گا۔‘

شیئر: