Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار پر تنازع کیوں، نیا طریقہ کار کیا ہوگا؟

ریاض فتیانہ نے تجویز کیا کہ ’ہائی کورٹس میں جج بھرتی کرنے کے لیے اخبارات میں اشتہار کے ذریعے متعلقہ صوبے سے درخواستیں طلب کی جائیں‘ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے تمام ہائی کورٹس میں ججوں کی تقرری کا طریقہ کار تبدیل کرنے اور اعلٰی عدلیہ میں ججوں کی تعداد میں اضافے کی تجویز دے دی ہے۔
کمیٹی کا کہنا ہے کہ ’اس حوالے سے قومی سطح پر مباحثے کا آغاز کر دیا ہے جس میں تمام سیاسی جماعتوں، بار ایسوسی ایشنز، سول سوسائٹی اور عدلیہ کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا۔‘
کمیٹی نے وزارت قانون سے سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس میں موجودہ ججز کی تعداد، زیر التوا کیسز اور گذشتہ چھ ماہ میں نمٹائے گئے کیسز کی تعداد کے بارے  میں تفصیلات بھی طلب کرلی ہیں۔
قائمہ کمیٹی نے اس معاملے پر مباحثے کے آغاز پر تو اتفاق کیا ہے تاہم کمیٹی کے بعض ارکان کا خیال ہے کہ ’حکومت اس سلسلے میں ثابت قدم نہیں رہ سکے گی۔‘ دوسری جانب وکلا بھی اس معاملے پر تقسیم نظر آتے ہیں۔
کمیٹی اجلاس کے دوران چیئرمیں ریاض فتیانہ نے تجویز کیا کہ ’ہائی کورٹس میں جج بھرتی کرنے کے لیے اخبارات میں اشتہار کے ذریعے متعلقہ صوبے سے درخواستیں طلب کی جائیں۔ اس سے ہزاروں وکلا اپلائی کریں گے۔ کمپیوٹر پر ٹیسٹ ہو۔ معلوم ہو جائے گا کہ کس کو آئین و قانون کا پتا ہے اور کون فیصلہ لکھ سکتا ہے اور کس کو فیصلہ لکھنا نہیں آتا۔
ریاض فتیانہ نے کہا کہ ’پاس ہونے والے ارکان میں سے ایک سیٹ کے مقابلے میں سب سے زیادہ نمبر لینے والے امیدواروں کو انٹرویو کے لیے شارٹ لسٹ کیا جائے۔ انٹرویو اکیلے چیف جسٹس نہ کریں بلکہ ہائی کورٹ کے سینیئر ترین ججز پر مشتمل ایگزیکٹیو کمیٹی انٹرویو کرے۔ اس سے ذہین ترین جج سامنے آئیں گے اور دنیا میں پاکستان کے ججوں اور عدلیہ کی عزت و وقار میں بھی اضافہ ہوگا۔
کمیٹی کے چیئرمین ریاض فتیانہ نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ ’جو تجویز دی گئی ہے وہ کمیٹی کی طرف سے دی گئی ہے۔ ہم عوام کے حقوق کے محافظ ہیں۔ دادا کیس کرتا ہے اور پوتا بھی وہی کیس لڑ رہا ہوتا ہے۔ ابھی ہم آپس میں بات کر رہے ہیں تو پھر حکومت کو بھی اس متفقہ دستاویز پر قائل کرلیں گے۔
کمیٹی کی اس تجویز سے اختلاف کرتے ہوئے پاکستان بار کونسل نے موقف اپنایا ہے کہ ’ججز تعیناتی کے لیے عدلیہ ریاست کا ایک ستون ہے۔ یہ ایک قابل احترام ادارہ ہے۔ اگر ان کو اشتہارات کے ذریعے بھرتی کرنے کی تجویز دی جائے تو یہ مناسب نہیں ہوگا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر نے کمیٹی کی تجویز کا خیر مقدم کیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اردو نیوز سے گفتگو میں پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین خوش دل خان نے کہا کہ ’ہائی کورٹ میں 50 فیصد ججز جوڈیشل سسٹم سے ہی آتے ہیں جبکہ باقی 50 فیصد وکلا سے بھرتی کیے جاتے ہیں۔ ہماری تجویز یہ ہے کہ اشتہار دینے کے بجائے ججز کی تعیناتی کی اہلیت کے لیے ترمیم کی جائے۔ پارلیمنٹ کے پاس آئین میں ترمیم اور قانون سازی کا اختیار ضرور ہے لیکن کوئی بھی ایسا قانون جو عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہوگا عدالت اس کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ پاکستان بار کونسل بھی ایسی کسی کوشش کی مخالفت کرے گی۔
وکلا ہی کی تنظیم اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر راجا زاہد محمود نے کمیٹی اجلاس میں اس تجویز کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے ہاں میرٹ کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ ہمارے ہاں حالات ایسے ہو چکے ہیں کہ کسی کو بھی اٹھایا جاتا ہے اور وہ جج بن جاتا ہے۔ اگر اس کا طریقہ کار تبدیل ہو جائے گا تو کوئی وکیل بھی محروم نہیں رہ سکے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جب فیصلہ ایک جج پر چھوڑ دیا جاتا ہے تو اس میں ہم نہیں سمجھتے کہ میرٹ پر عمل ہو سکتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’ایک مخصوص گروپ سے لوگوں کو جج تعینات کیا جاتا ہے تو پوری عدلیہ پر ایک مخصوص گروپ کی چھاپ لگ جاتی ہے۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ججز اب چہرے دیکھ کر فیصلے کرنے لگ گئے ہیں۔ جب اوپن میرٹ ہوگا تو ایسے مسائل جنم نہیں لیں گے۔
کمیٹی میں پاکستان مسلم لیگ ن کی نمائندگی سابق صوبائی وزیر قانون اور رکن قومی اسمبلی رانا ثنا اللہ خان کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’ججز کی تقرری کا ایک معیار تو مقرر ہے۔ 15 سال کے تجربے کے حامل وکیل کو ہی جج بنایا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں اعلٰی عدلیہ کے ججز کے تقرر کے طریقہ کار کی سٹڈی کرائی جائے۔ اس کی روشنی میں پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور عدلیہ کو بھی اعتماد میں لے کر آگے بڑھنا چاہیے۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’وزارت قانون اس معاملے میں نہیں پڑے گی اور نہ ہی حکومت آئین میں ترمیم کے لیے قدم اٹھا سکتی ہے۔ یہ ایک بحث ہے اور اگر دو تین سال لگا کر تمام فریقین کے ساتھ بات چیت کی جائے اور انھیں اعتماد میں لیا جائے تو ممکن ہے کہ ایسی اصلاحات لائی جا سکیں۔

 رانا ثنا اللہ خان نے تجویز دی کہ ’پوری دنیا میں اعلٰی عدلیہ کے ججز کے تقرر کا طریقہ کار سٹڈی کیا جائے‘ (فوٹو: اے پی پی)

اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے 18 ہویں ترمیم میں ججز تعیناتی کا طریقہ کار بحال کرنے کی تجویز دی ہے۔ رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ نے کہا کہ ’ججز تقرری کا حتمی اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہونا چاہیے۔
کمیٹی اجلاس کے دوران اس معاملے پر ہونے والی بحث میں وزارت قانون مکمل طور پر خاموش دکھائی دی۔
اردو نیوز کے استفسار پر سیکریٹری قانون راجا نعیم اکبر نے کہا کہ ’ججز تقرری کے طریقہ کار اور ججز کی تعداد بڑھانے کے لیے آئینی ترمیم درکار ہے تاہم وزارت قانون میں ابھی تک اس معاملے پر کسی قسم کا غور نہیں ہو رہا۔ اگر تمام سیاسی جماعتیں متفق ہو جاتی ہیں اور حکومت بھی آئینی ترمیم چاہتی ہے تو وزارت قانون بل تیار کر دے گی۔

شیئر: