Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں انتخابات، کیا اپوزیشن تاریخ بدل سکے گی؟

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے پاکستان کی اپوزیشن جماعتیں پاکستان کی حکمراں جماعت کو شکست دینے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔
کشمیر کی پارلیمانی تاریخ میں یہ رجحان رہا ہے کہ پاکستان کی حکمران جماعت ہی کشمیر کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کی کشمیر میں شاخیں انتخابات میں حصہ تو لیتی ہیں لیکن وہ نتائج سے پہلے ہی آگاہ ہوتی ہیں۔
اب کی بار مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اپنے اپنے طور پر کشمیر میں اپ سیٹ کرنے اور تاریخ بدلنے کے لیے بھرپور عوامی مہم چلا رہی ہیں۔
وفاقی وزراء بھی اگرچہ کشمیر میں موجود ہیں لیکن مقامی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کو ماضی کی حکمران جماعتوں کی نسبت مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔
اسلام آباد میں مقیم سینیئر کشمیری صحافی اور تجزیہ کار سردار عاشق حسین نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں بتایا کہ ’کشمیر کا ایک کھرب 40 ارب روپے کا بجٹ پاکستان کی وفاقی حکومت دیتی ہے۔ اسی مالی کنٹرول کی وجہ سے کشمیر کے حکمران اور عوام اسلام آباد کی چمک کی طرف دیکھتے ہیں اور اسی چمک سے کشمیریوں کی رائے خریدی جاتی ہے۔ اب کی بار بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کو ضرورت سے زیادہ محنت کرنا پڑ رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ہونے ولے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کو پے در پے شکستوں کے بعد اب کشمیر کے عوام بھی مختلف فیصلہ کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مہنگائی، بے روزگاری اور مشکل معاشی صورت حال کا اثر بھی کشمیر کے انتخابات پر پڑا ہے۔‘
سردار عاشق کے مطابق ’کشمیر میں پاکستان تحریک انصاف وہ اکثریت جو ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو یا اس پہلے مسلم کانفرنس کو ملتی رہی ہے ، حاصل نہیں کر سکے گی۔ تنہا سادہ اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے تحریک انصاف کو پاکستان کی طرح کشمیر میں بھی اتحادی حکومت بنانا پڑے گی۔‘
کشمیر میں انتخابی سرگرمیوں، جوڑ توڑ اور مقامی سطح پر بدلتے حالات کو رپورٹ کرنے والے صحافی حارث قدیر نے اردو نیوز کو بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف کے چار رہنما اس وقت وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں ہیں۔ جن میں بیرسٹر سلطان، سردار تنویر الیاس، چوہدری انوارالحق اور خواجہ فاروق شامل ہیں۔ ان دھڑے بندیوں کی وجہ سے تحریک انصاف کو سادہ اکثریت حاصل کرنے میں مشکل ہوگی۔ تاہم مسلم کانفرنس اور دیگر جماعتوں کے ایک ایک دو دو کامیاب امیدواروں کو ساتھ ملا کر اتحادی حکومت بننے کا امکان ہے۔‘
ان کے مطابق ’تحریک انصاف نے ٹکٹوں کی تقسیم میں تاخیر، ٹکٹوں کی تقسیم میں پارٹی ورکرز کو نظر انداز کرنے اور الیکٹ ایبلز کو پارٹی میں شامل کرنے اور پارٹی کے اندرونی اختلافات کو ختم نہ کرنے جیسی کئی بڑی غلطیاں کی ہیں۔ جن کا نقصان انتخابات میں حکمران جماعت کو بھگتنا پڑا سکتا ہے۔‘
دوسری جانب کشمیری سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ملک عبدالحکیم کشمیری سمجھتے ہیں کہ ’کشمیر کے انتخابات میں تحریک انصاف پہلے، پیپلز پارٹی دوسرے، مسلم لیگ ن اور مسلم کانفرنس میں تیسرے نمبر کا مقابلہ ہوگا۔‘
اردو نیوز سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ’تحریک انصاف مشکل سے ہی سہی لیکن سادہ اکثریت حاصل کر لے گی۔ 1985 سے مرکز(اسلام آباد) کی حکمراں جماعت کی جیت کی روایت بدلنا شاید اس بار بھی ممکن نہ ہو۔‘
خیال رہے کہ کشمیر کے گزشتہ انتخابات میں مسلم لیگ ن دو تہائی اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوئی تھی جبکہ اس وقت کی کشمیر کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کشمیر سے دو جبکہ مہاجرین کی ایک نشست کراچی سے حاصل کر سکی تھی۔ تحریک انصاف نے مہاجرین کی لاہور اور مانسہرہ کی ایک ایک نشست جبکہ کشمیر سے ایک نشست کے ساتھ مجموعی طور پر تین نشستیں حاصل کی تھیں۔

شیئر: