Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانستان: ماضی کے سائے اور مستقبل کا خوف، ماریہ میمن کا کالم

آنے والے دنوں میں افغان طالبان کا کردار اور عمل ان کے اور افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
افغانستان کے ذکر کے ساتھ جنگ کا ذکر لازم و ملزوم ہے۔ یہ جنگ بھی نہ ختم ہونے والی جنگ ہے۔ کم از کم 40  سے زیادہ برسوں سے تو کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔
کبھی یہ جنگ قبضے کی جدوجہد کا روپ دھارتی ہے اور وقت کی عالمی طاقتیں افغانستان میں نبرد آزما ہوتی ہیں اور کبھی یہ خانہ جنگی کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اسی دوران دہشت گردی کا بھی دور رورہ رہا ہے اور عوامی مقامات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
اکثر تو یہ تینوں شکلیں یعنی قبضہ، خانہ جنگی اور دہشت گردی اکھٹے رونما ہوئے ہیں۔ اس دوران متحارب گروہوں کو جو نقصان ہوا سو ہوا، اصل نقصان افغانستان کے عوام کا ہوا۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے یا مارے گئے، کئی نسلیں دربدر رہیں اور بنیادی انسانی سہولتوں اور ایک مضبوط ریاست کا قیام خواب ہی رہا۔ 
ماضی کے یہ سائے ایک گرداب بن کر مستقبل پر منڈلا رہے ہیں۔ ان میں خوف بھی ہے اور اضطراب بھی۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ کوئی غیر ملکی طاقت افغانستان سے نکل رہی ہے۔
یہ بھی پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ افغانستان کے شہر اور ضلعوں اور گلیوں میں لڑائی چھڑی ہوئی ہے۔ اور پھر یہ بھی پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ فضا میں خوف کے مہیب سائے منڈلا رہے ہیں۔ سوال اب یہ ہے کہ آگے کیا صورت بنے گی؟ 
 امریکہ نے دو دہائیوں تک افغانستان میں قیام کیا اور ریاست بانی یعنی state building کے کئی تجربوں کے بعد اب وہاں سے بغیر خبر اور آگے کے انتظام کے نکل رہا ہے۔
اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ملک اور معاشرے خالی سلیٹ نہیں ہوتے جن پر کچھ بھی لکھ دیا جائے۔ شاید کبھی امریکہ میں کوئی کمیشن ان دو دہائیوں کے تجربے پر بیٹھے اور حساب لگایا جائے کہ سپر پاور کے طاقت کے مظاہرے کا کتنا فائدہ اور کتنا نقصان ہوا۔

آنے والے دنوں میں افغان طالبان کا کردار اور عمل ان کے اور افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

امریکہ تو شاید اپنے فائدے نقصان کو اخراجات اور فوجی حساب کتاب میں تولے مگر کیا افغانستان آج ایک محفوظ اور مضبوط ریاست ہے؟ اس سوال کا جواب تو واضح ہے البتہ تمام فریق اس کا الزام ایک دوسرے پر لگائیں گے مگر الزامات سے مستقبل محفوظ نہیں بلکہ مزید گھمبیر ہو رہا ہے۔
افغانستان میں عدم استحکام کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑتا ہے۔ پچھلے افغان مہاجرین ابھی واپس بھی نہیں گئے کہ نئے بحران کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ پاکستان کی تشویش کی ایک اور وجہ افغانستان میں پاکستان مخالف عناصر کی سرگرمیاں اور عزائم بھی ہیں جن میں اکثر افغان اداروں کی اعانت شامل ہوتی ہے۔ مزید افغانستان میں خانہ جنگی سے پاکستان میں ملوث دہشت گردوں کو ہوا ملتی ہے۔ اس لیے پاکستان کا موقف دو ٹوک اور واضح رہا ہے کہ ایک پر امن افغانستان ہی پاکستان کے مفاد میں ہے۔ افغان حلقوں میں پاکستان کے بارے میں منفی پروپیگنڈا ضرور جاری ہے مگر سنجیدہ سفارتی کو ششوں پر حوصلہ افزا جواب نہیں دیا جاتا۔
موجودہ افغان حکومت کی عاقبت نااندیشی کا اندازہ ان کی ترجیحات سے لگایا جا سکتا ہے۔ ایک طرف جب ان کا ملک ہاتھوں سے نکل رہا ہے اور دوسری طرف وہ سرحد کو لے کر گڑھے مردے اکھاڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
آنے والے دنوں میں افغان طالبان کا کردار اور عمل ان کے اور افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔ نسبتا جوان لوگوں کے ذہنوں میں بھی ان کی پچھلے دور کی تلخ یادیں تازہ ہیں جب وہ ایک اندرونی طور پر انتہا پسند اور بیرونی طور پر غیر ذمہ دار قوت کے طور پر جانے گئے۔ ابھی تک انہوں نے زبانی کلامی ایک نئی جہت دکھانے کی کوشش کی ہے مگر گراؤنڈ سے بدستور تشویش ناک خبریں آ رہی ہیں۔

افغانستان ایک بات پھر دوراہے پر ہے جہاں خانہ جنگی کا آغاز ہو چکا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

طالبان کے امیر کے تازہ ترین پیغام میں بھی کئی تضادات ہیں۔ وہ سیاسی حل اور فوجی مہم جوئی دونوں کا بیک وقت اعادہ کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو باقی دنیا کے سامنے ایسے پیش کرتے ہیں جیسے افغانستان پر حکومت ان کی ہو اور کابل میں موجود حکومت کو صرف ایک مخالف فریق ٹھہراتے ہیں۔ اس اپروچ کے ساتھ وہ کیسے ایک متنوع اور مختلف خیال نظام کو چلائیں گے، جس میں کئی قومیتوں اور طبقوں کے لوگ شامل ہوں، یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ 
افغانستان ایک بات پھر دوراہے پر ہے۔ خانہ جنگی کا آغاز ہو چکا ہے۔ یہ خانہ جنگی البتہ جلدی اپنے انجام پہنچتی نظر نہیں آ رہی۔ جتنی دیر یہ خانہ جنگی چلے گی اتنا ہی افغانستان کا انفراسٹرکچر متاثر ہو گا، لوگوں کا اعتماد متزلزل ہو گا اور فریقین میں بات چیت کی گنجائش ختم ہوتی چلی جائے گی۔
پھر یہ بھی واضح نہیں کہ خانہ جنگی کے بعد امن ہو گا اور اگر امن ہوا بھی تو اس کی قیمت کیا ہو گی؟ اسی لیے صائب راستہ یہی ہے کہ فریقین ماضی کو دہرانے کے بجائے اس سے سبق سیکھیں۔ اور سبق بھی صاف ظاہر ہے۔
جنگ اور خانہ جنگی کے بجائے مذاکرات کا راستہ نکالا جائے۔ مذاکرات کا مقصد بھی یہ ہو کہ گزشتہ 20 سالوں میں جو تعمیر اور نظام بنا ہو اس کو بچا کر آگے بڑھا جائے نہ کہ اس کو مٹانے کی کوشش کی جائے۔ فی الحال البتہ ماضی کہ سائے ہیں اور مستقبل کا خوف۔

شیئر: