Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اوپیک کو تیل کی منڈی سعودی عرب کے ہاتھ میں چھوڑ دینی چاہیے‘

روبرٹ یاگر کا کہنا تھا کہ اوپیک اور توانائی کی پوری صنعت کو سعودی عرب کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ (فوٹو: روئٹرز)
توانائی کے شعبے سے وابستہ ایک سینیئر مبصر کا کہنا ہے کہ اوپیک اور توانائی کی پوری صنعت کو سعودی عرب کا شکرگزار ہونا چاہیے جس نے پچھلے سال تیل کی قیمتوں کو منفی حدود سے نکالا۔ اس کے زیرسایہ مارکیٹ مزید بہتر ہو جائے گی۔
عرب نیوز کے مطابق میزوہو سکیورٹیز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر رابرٹ یاگر نے بلومبرگ ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے سعودی عرب کو سراہا اور کہا ’ کورونا بحران کے دنوں میں انہوں نے تیل کی پیداوار کے پروگرام کو بہترین انداز میں سنبھالا۔‘
گذشتہ سال تاریخ میں پہلی بار خام تیل کی قیمت منفی میں گئی جب کورونا وائرس کی وبا کے باعث دنیا بھر میں لاک ڈاؤن لگے۔
رابرٹ یاگر کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک ایسا موقع تھا جس کی مثال نہیں ملتی، اس کی وجہ سے پوری انڈسٹری خوف کا شکار ہو گئی تھی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سعودیوں کی بہترین حکمت عملی کی بدولت صورت حال بہتری کی طرف آئی، جس پر تیل کی ساری انڈسٹری ان کی مشکور ہے۔‘
امریکہ کا مشہور ڈبلیو ٹی آئی خام تیل پانچ جولائی کو چھ سال کی بلند ترین شرح 76 اعشاریہ 98 ڈالر تک پہنچا۔ کیونکہ اوپیک پلس پیداواری معاہدہ کرنے میں ناکام رہا لیکن سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے سمجھوتے کے بعد سے اس کی قیمت میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔
 گروپ اگست سے 14 ماہ کے لیے اپنی پیداوار 40 لاکھ بیرل تک بڑھائے گا۔
رابرٹ یاگر کا کہنا تھا کہ ’پیداوار میں نظم و ضبط نے قیمتوں کو واپس لانے میں مدد کی تاہم تجدید شدہ بندشوں نے طلب کو متاثر کیا تو مارکیٹ خطرے میں چلی جائے گی۔‘
ان کے مطابق ’میں سمجھتا ہوں کہ ہر کوئی ممکنہ حد تک زیادہ بیرل مارکیٹ سے حاصل کرنا چاہتا ہے مگر آپ ایسا نہیں کر سکتے، اس وقت نازک صورت حال ہے۔‘ 
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں بہترین طریقہ یہ ہے کہ سعودی عرب کو اس کا انتظام کرنے دیا جائے کیونکہ انہوں نے پہلے بھی ناقابل یقین کام کیا ہے۔‘
رابرٹ یاگر کا کہنا تھا کہ ’ہر ایک کو منفی حدود میں جانے والی قیمتیں یاد ہیں، یہ پچھلے سال ہونے والی قیمتوں کی جنگ کا نتیجہ تھا اور پھر سب اس نتیجے پر پہنچنے کہ سعودی عرب کو چارج سنبھالنے دیا جائے اور صورت حال کی بہتری کے لیے کام کرنے دیا جائے کیونکہ کوئی صورت حال کے تسلسل کو زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکتا تھا۔‘
ان کے مطابق ’میں نہیں جانتا کہ ہم 78 اعشاریہ 98 کا نمبر پھر کیوں دیکھ رہے ہیں، یہ ایک چیلنج ہو سکتا ہے۔‘

شیئر: