Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاک ڈاؤن کا اعلان: ’تین کروڑ سے زائد آبادی کا شہر مکمل بند کرنا ظلم‘

حکومت کی جانب سے سندھ میں تعلیمی اداروں کی بندش کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
کورونا وائرس کی نئی قسم ڈیلٹا ویریئنٹ کے بڑھتے ہوئے کیسے کے پیش نظر سندھ حکومت نے 31 جولائی سے 8 اگست تک لاک ڈاؤن لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اطلاع سامنے آنے کے بعد جہاں ایک حلقے نے وبا روکنے کے لیے اس اقدام کی تائید کی وہیں بہت سے صارفین اسے پہلے سے مشکلات کا شکار سندھ کے مکینوں کے لیے مزید مشکلات کا پیش خیمہ قرار دیتے رہے۔
لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا فیصلہ جمعے کو سندھ ٹاسک فورس کے اجلاس میں کیا گیا جس کے بعد وزیراعلٰی سندھ نے دیگر وزرا کے ہمراہ پریس کانفرنس میں حکومتی فیصلے کی وجوہات اور تفصیل بھی بتائی۔
وزیراعلٰی سندھ کی پریس کانفرنس سے قبل ہی ’لاک ڈاؤن‘ ٹوئٹر کے ٹرینڈز لسٹ میں شامل ہوئے تو اس میں گفتگو کرنے والوں کی خاصی بڑی تعداد لاک ڈاؤن کے اثرات سے متعلق خدشات کا شکار دکھائی دی۔
کچھ صارفین نے اسے صوبائی حکومت کی ناکام پالیسیوں سے تعبیر کیا تو گذشتہ لاک ڈاؤنز کے موثر ہونے یا نہ ہونے پر بھی تبصرہ کیا۔
ایسے ہی ایک صارف نے لکھا کہ ’سندھ حکومت کی ناکام پالیسیوں کا خمیازہ کراچی کے عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ بھتوں اور پیداگیری کے چکر میں پچھلے ایک سال سے سندھ میں ایس او پیز کی دھجیاں اڑائی گئیں، اور اب بھی اس 9 دن کے لاک ڈاؤن میں اپنے من پسند لوگوں کو کاروبار کھولنے کی اجازت دی جائے گی۔‘

کچھ صارفین لاک ڈاؤن کے فیصلے سے متفق رہے تو اسے وبائی صورت حال میں ناگزیر اقدام قرار دیا۔ عمار فیاض نامی ہینڈل نے لکھا کہ ’میں حکومت سندھ کے صوبہ بھر میں لاک ڈاؤن لگانے کے فیصلہ پر متفق ہوں۔ براہ مہربانی ویکسین لگوائیں اور محفوظ رہیں۔‘

لاک ڈاؤن نسے پیدا ہونے والی صورت حال کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رکن سندھ اسمبلی ارسلان تاج لکھتے ہیں کہ ’پی ٹی آئی کی جانب سے کراچی میں لاک ڈاؤن کی مخالفت کی گئی ہے۔‘
’اس ضمن میں سندھ حکومت کے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کوئی صداقت نہیں کہ اس فیصلے میں پی ٹی آئی شامل ہے۔ پیپلز پارٹی لاک ڈاؤن کی آڑ میں کراچی کی معیشت کو تباہ کرنا چاہتی ہے۔ لاک ڈاؤن سے صرف ان کی جیبیں گرم ہوں گی۔‘

لاک ڈاؤن سے متعلق کی گئی پریس کانفرنس میں بھی وزیراعلٰی سندھ کا کہنا تھا کہ ‘این سی او سی کے سربراہ اسد عمر کو معاملے سے آگاہ کیا ہے اور انہوں نے تعاون کا یقین دلایا ہے۔‘
تاہم وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے کی گئی ٹویٹ نے لاک ڈاؤن کے فیصلے سے پی ٹی آئی حکومت کے مکمل اتفاق کے تاثر کی نفی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’سندھ حکومت کے لاک ڈاؤن کے فیصلے کا بغور جائزہ لے رہے ہیں، وزیراعظم کی پالیسی بالکل واضح ہے کہ ہم ہر ایسے اقدام کے خلاف ہوں گے جس سے عام آدمی کی معیشت شدید متاثر ہو‘۔

صوبائی اور وفاقی حکومت کے درمیان لاک ڈاؤن کے فیصلے پر اتفاق ہونے کا معاملہ کسی کروٹ نہیں بیٹھا تھا کہ اسی دوران دیگر سیاسی جماعتوں اور کراچی کی تاجر برادری کی جانب سے بھی فیصلے کی مخالفت کی گئی۔
جماعت اسلامی کراچی کے امیر انجینئر نعیم الرحمان نے ’تین کروڑ سے زائد آبادی کا شہر مکمل بند کرنا ظلم‘ قرار دیا تو اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’سندھ حکومت کے لاک ڈاؤن کے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں۔ پہلے ہی عوام اور چھوٹے تاجر مہنگائی اور حکومتی پالیسیوں سے بدحال ہیں‘۔

لاک ڈاؤن سے متاثر ہونے والے افراد کا ذکر ہوا تو حکومت سے توقع کی گئی کہ وہ ایسے طبقات کا خیال رکھے گی۔ صارف اعظم زہری لکھتے ہیں کہ ’جب سندھ حکومت نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ہے تو دوران لاک ڈاؤن غربا اور نادار کی کفالت کا بھی حکم صادر فرمائے ورنہ غریب لوگ بھوک سے مرجائیں گے۔‘

وبائی صورت حال میں پابندیوں کے اعلان لیکن ان پر خاطر خواہ عمل نہ ہونے کے پہلو پر تبصرہ کرنے والے حکومتی اہلیت پر سوال اٹھاتے رہے۔
کاظم حسین نامی صارف نے سوال کیا کہ ’سندھ حکومت کابینہ سمیت کشمیر میں الیکشن مہم چلاتی رہی، اور اب سندھ میں لاک ڈاؤن لگا دیا۔ سوال یہ ہے آپ جب جلسے، جلوس اور ریلیاں کر رہے تھے تو وہاں کورونا نہیں تھا یا اس وقت کورونا اتنا اثرانداز نہیں تھا جتنا 8 اگست تک ہو گا؟‘

سندھ میں لاک ڈاؤن سے متعلق یہ بحث ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب ملک کے مختلف حصوں میں کورونا کیسز میں اضافہ رپورٹ کیا جا رہا ہے۔ نئے مریضوں کی شرح کے اعتبار سے سندھ کا دارالحکومت کراچی ملک میں وبا سے سب سے زیادہ متاثرہ شہروں میں شامل ہے۔

شیئر: