Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعظم کے مشیر شہزاد اکبر اور ترین گروپ کے ایم پی اے نذیر چوہان کے درمیان تنازع کیا ہے؟

ایف آئی اے نے نذیر چوہان کا دو روز کا ریمانڈ حاصل کیا ہے (فوٹو: ویڈیو گریب)
پاکستان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں ان دنوں جو ایک بڑی خبر گردش میں ہے وہ حکمراں جماعت تحریک انصاف کے دو رہنماؤں کے بیچ ہونے والی جنگ سے متعلق ہے، جو اب ڈرائنگ روم سے نکل کر جیل تک پہنچ  چکی ہے۔
یہ جنگ وزیر اعظم عمران خان کے خصوصی مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر اور تحریک انصاف کے ہی لاہور سے منتخب ہونے والے رکن پنجاب اسمبلی نذیر چوہان کے درمیان ہے۔
حکمراں جماعت کے ان دونوں رہنماؤں کے درمیان ذاتی چپقلش کبھی بھی سامنے نہیں آئی۔ البتہ جب یہ پیدا ہوئی تو اس کی جڑیں تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کے خلاف ہونے والے مقدمات سے جا ملتی ہیں۔
گذشتہ برس چینی بحران کے کرتا دھرتاؤں کے خلاف ایف آئی اے نے تحقیقات کا آغاز کیا تو اس انکوائری کی نگرانی شہزاد اکبر کر رہے تھے۔ تحقیقات مکمل ہونے کے بعد مارچ 2021 میں جب جہانگیر خان ترین کے خلاف ایف آئی اے نے پہلا مقدمہ درج کیا تو انہوں نے تحریک انصاف میں اپنے حامی اراکین پارلیمنٹ کا ایک اجلاس اپنے گھر پر بلایا۔ اس اجلاس میں شرکت کرنے والے لاہور سے واحد ایم پی اے نذیر چوہان ہی تھے۔
جہانگر ترین نے عبوری ضمانت کرائی تو ان کے حامی اراکین ان کے ساتھ ہی تھے۔ ترین نے اپنے خلاف ہونے والے مقدمات میں شہزاد اکبر کا نام لیے بغیر کہا کہ ’مجھے پتا ہے میرے خلاف ایف آئی آر کی تحریر کسی یو ایس بی میں اسلام آباد سے آئی ہے‘، اس وقت نذیر چوہان اور راجہ ریاض ان کے دائیں اور بائیں کھڑے تھے اور دونوں نے ہی کھل کر شہزاد اکبر کا نام لیا۔
اسی دوران ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں ترین کے حمایتی اراکین کھل کر بولے رہے۔ مئی کے وسط میں شہزاد اکبر نے لاہور کے تھانہ ریس کورس میں ایک درخواست دائر کی جس میں موقف اختیار کیا کہ نذیر چوہان نے ایک ٹی وی چینل پر بیٹھ کر ان کے عقیدے سے متعلق ایسی بات کی ہے جس سے ان کی اور ان کے اہلخانہ کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔

پی ٹی آئی کے رکن پنجاب اسمبلی جہانگیر ترین گروپ کا اہم حصہ سمجھتے جاتے ہیں (فوٹو: ویڈیو گریب)

پولیس نے 29 مئی کو تحریک انصاف کے ایم پی اے نذیر چوہان کے خلاف ہتک عزت، مذہبی عقیدے کو نقصان پہنچانے اور قتل کی دھمکیوں سمیت پانچ الزامات کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔
ایف آئی آر میں شہزاد اکبر نے یہ بھی موقف اختیار کیا کہ ان کے خلاف پراپیگنڈہ ان کی ملک میں احتساب کے لیے گراں قدر خدمات کے نتیجے میں شروع کیا گیا۔ اور اس کا مقصد احتساب کے عمل کو سست کرنا ہے۔
مقدمے کے اندراج پر نذیر چوہان کئی درجن کارکنوں کے ساتھ تھانہ ریس کورس گرفتار دینے کے لیے پہنچ گئے تاہم پولیس نے انہیں گرفتار نہیں کیا۔ انصافی وزار نے کھل کر شہزاد اکبر کا ساتھ دیا۔ فواد چوہدری ، مراد سعید ، شیریں مزاری اور شہباز گل نے کھل کر مشیر برائے احتساب کے لئے ٹویٹ بھی کیے۔
اسی دوران باقاعدہ طور پر تحریک انصاف میں جہانگیر ترین گروپ کھل کر سامنے آگیا اور پس پردہ معاملے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے بھی کئی قوتیں متحرک ہو گئیں۔ ایف آئی اے نے جہانگر ترین کی گرفتاری کو عدالت کے سامنے ایک غیر ضروری عمل قرار دیے دیا جس کے بعد ان کی اور ان کے بیٹے کی عبوری ضمانت مستقل میں تبدیل ہوگئی۔
وزیر اعلی پنجاب نے ترین گروپ سے ملاقات بھی کی اور بجٹ سیشن میں بھر پور شرکت پر آمادہ بھی کر لیا۔

نذیر چوہان کی گرفتاری: 

28 جولائی کو اچانک پولیس نے اسی مقدمے میں نذیر چوہان کو گرفتار کر لیا۔ جس میں ان پر شہزاد اکبر کی ہتک اور ان کے مذہبی عقائد کر ٹھیس پہنچانے کے الزامات تھے۔ تاہم لاہور کے ایڈیشنل اینڈ سیشن جج نے ان کی اسی روز ضمانت منظور کر لی۔

شہزاد اکبر کی شکایت پر پی ٹی آئی رکن اسمبلی کے خلاف ہتک عزت سمیت دیگر الزامات کے تحت مقدمہ درج ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

مچلکوں میں تاخیرکے سبب ان کی رہائی 29 جولائی کو متوقع تھی کہ رہائی کے اس عمل کے دوران ہی کوٹ لکھپت جیل میں ایف آئی اے کی ٹیم پہنچ گئی اور ان کو اسی سے ملتے جلتے کیس میں گرفتار کر لیا۔
مشیر احتساب شہزاد اکبر نے ان کے خلاف ایف آئی اے میں بھی ایک مقدمہ درج کروا رکھا ہے جس میں یہ الزام ہے کہ نذیر چوہان نے سوشل میڈیا کا سہارا لے کر ان کی جان کو خطرے سے دوچار کیا۔ یہ مقدمہ 2016 سے پاکستان میں نافذ العمل الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت درج کیا گیا تھا۔ اس مقدمے میں نذیر چوہان ابھی ایف آئی اے کی حراست میں ہیں ان کا دوروزہ ریمانڈ لیا گیا ہے۔
28 جولائی کو ان کی گرفتاری کے بعد پولیس نے ان پر ایک اور ایف آئی آر بھی درج کر لی جو کہ مجموعی طور پر تیسرا مقدمہ تھا جس میں ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے کار سرکار میں مداخلت کی ہے اور پولیس اہلکاروں کو دوران حراست دھمکیاں دی ہیں۔
ان کی گرفتاری کے بعد اس وقت ایک ناخوشگوار صورت حال پیدا ہوئی جب پنجاب اسمبلی کے اجلاس کے دوران سپیکر نے ان کے پروڈکشن آرڈر 29جولائی کو جاری کیے تاہم ایف آئی اے ان کو اسمبلی اجلاس میں لے کر نہیں آئی۔  جس پر سپیکر اسمبلی نے انتہائی سخت رولنگ دیتے ہوئے اجلاس ملتوی کر دیا اور کہا کہ جب تک نذیر چوہان کو اسمبلی میں نہیں لایا جاتا کسی طرح کی قانون سازی نہیں ہو گی۔ انہوں نے بیوروکریسی پر بھی تنقید کی۔
جہانگیر ترین گروپ نے اس گرفتاری کے بعد ایک مرتبہ پھر سر جوڑ لیے ہیں اور اس کو سیاسی انتقام قرار دیا ہے۔

شیئر: