Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکمران نہ ہو کر بھی اہم فیصلوں میں شریک چند طاقتور پاکستانی

موجودہ دور حکومت میں اعظم خان کو سب سے طاقتور بیورو کریٹ سمجھا جاتا ہے۔ فوٹو: فیس بک فینز آف اعظم خان
گذشتہ سال آٹے اور چینی بحران پر وفاقی تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ میں نام سامنے آنے اور حکومتی زرعی ٹاسک فورس سے ہٹائے جانے کے بعد تحریک انصاف کے سینیئر رہنما جہانگیر ترین نے اپنے خلاف کارروائی کا ذمہ دار وزیراعظم عمران خان کو قرار دینے کے بجائے ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو قرار دیا تھا۔
وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اپنے وسیع اثر و رسوخ کے حوالے سے خاصے مشہور ہیں، تاہم وہ واحد شخص نہیں جو کسی حکمران کی قربت کے باعث بے پناہ اثر و رسوخ کے حامل ہوئے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ایسی کئی شخصیات ملیں گی جو وزیراعظم یا صدر نہ ہوتے ہوئے بھی ملک کی تقدیر بدلنے والے سیاسی یا معاشی فیصلوں میں شریک رہی ہیں۔
ہم کئی ایسے افراد کا تعارف کروا رہے ہیں جو ماضی یا حال کے حکمرانوں کے اتنے قریب رہے ہیں کہ تاریخ کے اہم ترین فیصلوں میں بھی ان کا نام سامنے آیا۔

قدرت اللہ شہاب

پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی کسی بیوروکریٹ کو اتنے طاقتور حکمرانوں کی اتنی قربت نصیب ہوئی ہو جتنی قدرت اللہ شہاب کو ہوئی۔
انڈین سول سروس میں منتخب ہوئے، پھر قیام پاکستان کے بعد ملک کے حکمرانوں گورنر جنرل ملک غلام محمد، صدر اسکندر مرزا اور صدر  جنرل محمد ایوب خان کے ساتھ بطور پرنسپل سیکرٹری کام کیا۔
متحدہ پاکستان کے سب سے طاقتور حکمران صدر ایوب خان کے زمانے میں ہونے والے بڑے فیصلوں میں قدرت اللہ شہاب کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔ وہ نا صرف ایک طاقتور بیوروکریٹ تھے بلکہ نامور ادیب کے طور پر بھی اپنا لوہا منوایا اور ایوب کے زمانے میں بڑے بڑے ادیبوں کو رائٹرز گلڈ میں شامل کروا کر کے صدر کو مزید طاقت بخشی۔ ان کی شہرہ آفاق سوانح عمری ’شہاب نامہ‘ ہے جس میں پاکستانی سیاست کے کئی اہم رازوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔

قدرت اللہ شہاب کی کی شہرہ آفاق سوانح عمری ’شہاب نامہ‘ ہے جس میں پاکستانی سیاست کے کئی اہم رازوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ (فوٹو: فیس بک قدرت اللہ شہاب)

کہا جاتا ہے کہ ان سے ہی صدر ایوب نے عمدہ عوامی تقاریر اور صحافیوں کے سوالات کے جواب دینے کا فن سیکھا۔ ان پر آمروں کا ساتھ دینے کا بھی الزام لگایا جاتا ہے۔ 
معروف شاعر حفیظ جالندھری نے ان کے لیے ایک شعر بھی لکھا تھا: ’جب کہیں انقلاب ہوتا ہے، قدرت اللہ شہاب ہوتا ہے۔‘
کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے تیسرے فوجی حکمران جنرل ضیا الحق کی بھی یہی خواہش تھی کہ قدرت اللہ شہاب کی وسیع خدمات اور تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اُن کو حکومت میں اہم ذمہ داری سونپی جائے مگر قدرت اللہ شہاب کی ضعیفی اور انتہا درجے کی عدم دل چسپی کی وجہ سے یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔
تاہم 80 کی دہائی میں روزنامہ جسارت کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں قدرت اللہ شہاب نے خود پر لگنے والے الزامات رد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کبھی کسی پوسٹنگ کے لیے سفارش نہیں کروائی بلکہ خود ہی ان کو اہم ترین عہدے ملتے گئے اور آخر میں جنرل یحییٰ کے آتے ہی انہوں نے خود نوکری سے استعفیٰ دیا اور اہل خانہ سمیت لندن چلے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں جنرل یحییٰ کو دیکھتے ہی پتہ لگ گیا تھا کہ یہ ملک توڑ دیں گے۔

راؤ عبدالرشید

سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں راؤ رشید بہت طاقت ور پولیس چیف کے طور پر سامنے آئے اور وہ اس قدر اہمیت رکھتے تھے کہ جنرل ضیا الحق نے مارشل لا کے نفاذ کے بعد انہیں بھٹو کے خلاف وعدہ معاف بننے کی پیش کش کی تاہم انہوں نے انکار کر دیا جس کی پاداش میں انہیں نا صرف نوکری سے نکال دیا گیا بلکہ گرفتار بھی کیا گیا تھا۔
علی گڑھ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل راؤ رشید نے پاکستان آ کر پولیس سروس جوائن کر لی تھی۔ بھٹو دور میں وہ نہایت طاقتور آئی جی پنجاب تھے اور پھر وہ وزیراعظم کے اتنے قریب ہوئے کہ انٹیلیجنس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر انہیں 1977 کے متنازعہ انتخابات کی نگرانی کا کام بھی سونپا گیا تھا۔ وہ بھٹو کے سلامتی کے امور کے ایڈوائز کے طور پر بھی تعینات رہے۔

نصیر اللہ بابر وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے خاصے قریب سمجھے جاتے تھے۔ (فوٹو: ٹوئٹر مسعود شریف خٹک)

سنہ 1988 میں وہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں دوبارہ اقتدار کے ایوانوں کے قریب آئے اور وزیراعظم کے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ بھی بنے تاہم بعد میں اختلافات کی بنیاد پر استعفیٰ دے کر بے نظیر کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کی پارٹی میں شامل ہو گئے۔ بعد میں وہ تحریک انصاف میں بھی شامل رہے۔
ان کی کتاب ’جو میں نے دیکھا‘ میں پاکستان کی تاریخ کے کئی رازوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔

جنرل نصیر اللہ بابر

نصیر اللہ بابر سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں صوبہ خیبر پختونخوا کے گورنر رہے تاہم انہیں طاقت اور شہرت 1993 کے بعد سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور اقتدار میں ملی جب وہ وفاقی وزیر داخلہ تھے۔ وہ بے نظیر بھٹو کے خاصے قریب سمجھے جاتے تھے۔ 
کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کے انچارج تھے اور اپنے دور کے ایک نہایت طاقت ور وزیرداخلہ کے طور پر جانے جاتے تھے۔ کراچی میں آپریشن کلین اپ کی کمانڈ کے دوران شہر کی گلیوں میں اکیلے ہی نکل پڑتے تھے۔ ان کا خارجہ پالیسی پر بھی اتنا اثر و رسوخ تھا کہ مبینہ طور پر افغانستان میں طالبان کو بنانے میں بھی ان کو ہی ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔

سیف الرحمن

سینیٹر سیف الرحمن سنہ 1997 میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی حکومت میں  بننے والے احتساب بیورو کے سربراہ تھے۔ وہ وزیراعظم نواز شریف کی قربت کے باعث اس دور کے طاقتور ترین افراد میں شمار ہوتے تھے۔

فواد حسن فواد کو ڈی فیکٹو وزیراعظم کے طور پر بھی جانا جاتا تھا۔ (فوٹو: وکی میڈیا)

انہی کے دور میں اس وقت کی اپوزیشن کے خلاف کیسز بنائے گئے اور انہوں نے بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے سوئٹزر لینڈ میں موجود مبینہ بینک اکاؤنٹس کا سراغ لگانے کا دعویٰ کیا۔ سینیٹر سیف الرحمن سیاسی مخالفین پر تشدد اور مقدمات بنانے کے الزامات کی وجہ سے تنازعات کا شکار بھی ہوئے۔ ممتاز صحافی نجم سیٹھی کی گرفتاری اور جنگ گروپ کے خلاف کارروائی بھی انہی کے ایما پر کی گئی تھی۔ بعد میں ان کے خلاف ایف آئی اے نے مخالفین کے خلاف ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرنے پر ریڈ وارنٹ بھی جاری کیا۔

طارق عزیز

30 سال تک محکمہ انکم ٹیکس میں ملازمت، غیر اہم عہدوں کے بعد طارق عزیز کی قسمت کی دیوی ان پر اس وقت مہربان ہو گئی جب ان کے ایف سی کالج لاہور کے ساتھی جنرل پرویز مشرف نے فوجی انقلاب کے ذریعے اقتدار سنبھال لیا۔ مشرف نے اقتدار میں آتے ہی انہیں پرنسپل سیکرٹری اور سیاسی مشیر بنا لیا۔
طارق عزیز اپنے وقت کے انتہائی طاقتور بیوروکریٹ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ فوجی حکمران کے اتنے قریب تھے کہ انہی کا مشورہ چوہدری برادران کو نیب کی تحقیقات سے مسند اقتدار تک لانے کا سبب بنا۔ سنہ 2002 کے انتخابات میں بھی مسلم لیگ ق کے ٹکٹوں کی تقسیم سے لے کر وزراتوں اور عہدوں کی تقسیم تک ان کا کلیدی کردار رہا۔
جنرل مشرف نا صرف سیاسی معاملات کے لیے طارق عزیز پر بھروسہ کرتے تھے بلکہ خارجہ امور پر طارق عزیز نے کئی بار ان کے نمائندے کے طور پر اہم امور نمٹائے۔
جون 2004 میں گلف نیوز میں شائع ایک خبر کے مطابق طارق عزیز انڈین قومی سلامتی کے مشیر برجیش مشرا سے ملنے گاڑی پر لاہور سے امرتسر گئے اور اعلیٰ انڈین حکام سے خفیہ ملاقاتوں میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان اعلیٰ سطحی مذاکرات کا ایجنڈا طے کیا۔

حکومتی امور میں کئی وفاقی وزرا سے زیادہ اعظم خان کی رائے چلتی ہے۔ (فوٹو: فیس بک فینز آف اعظم خان)

فواد حسن فواد

فواد حسن فواد پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے 22 ویں گریڈ کے افسر تھے۔ سابق وزیرنواز شریف کے تیسرے دور حکومت کے سب سے طاقتور ترین بیوروکریٹ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ایک دور میں وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری ہونے کے ناطے انہیں اسلام آباد میں ڈی فیکٹو وزیراعظم بھی کہا جاتا تھا۔
کسی بھی بیوروکریٹ کی تعیناتی ہو یا ترقی و تبادلہ وزیراعظم نواز شریف فواد حسن فواد کے مشورے کے بغیر نہیں کرتے تھے۔ فواد حسن فواد نومبر 2015 سے جون 2018  تک وزیر اعظم آفس میں پرنسپل سیکریٹری کے عہدے پر براجمان رہے۔ انہوں نے دو وزرائے اعظم کے ساتھ بطور پرنسپل سیکرٹری کام کیا، جن میں نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی شامل ہیں۔
فواد حسن فواد نے پنجاب میں سیکریٹری ہیلتھ کے عہدے پر کام کیا اور وہاں بھی سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے بااعتماد افسروں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ تاہم جیسے ہر عروج کو زوال ہے اسی طرح وہی فواد حسن فواد ن لیگ کی حکومت ختم ہونے کے بعد چھ جولائی 2018 کو گرفتار ہو گئے جہاں وہ 17 جنوری 2019 کو مدت ملازمت پوری ہونے پر نیب کی حراست میں ہی ریٹائر ہوگئے۔ انہیں قومی احتساب بیورو نے  آشیانہ ہاؤسنگ سوسائٹی کے مقدمے میں گرفتار کیا اور ان پر آمدن سے زائد اثاثوں کا بھی کیس بنا۔ تاہم 17 ماہ گرفتاری کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے انہیں رہا کرنے کا حکم جاری کر دیا۔

اعظم خان

جو مقام فواد حسن فواد کو نواز شریف کے دور حکومت میں رہا تقریبا اتنا ہی مرتبہ وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کو بھی موجودہ حکومت میں حاصل ہے گو کہ انہیں ڈی فیکٹو وزیراعظم کبھی نہیں کہا گیا تاہم اسلام آباد میں سب جانتے ہیں کہ حکومتی امور میں کئی وفاقی وزرا سے زیادہ اعظم خان کی رائے چلتی ہے۔ ان کی اتنی اہمیت ہے کہ آٹے اور چینی بحران پر وفاقی تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ میں نام سامنے آنے اور حکومتی زرعی ٹاسک فورس سے ہٹائے جانے کے بعد تحریک انصاف کے سینیئر رہنما جہانگیر ترین نے اپنے خلاف کارروائی کا ذمہ دار وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو قرار دیا تھا۔

وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کا عہدہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

2018 کے انتخابات میں وزیراعظم بننے کے فوراً بعد عمران خان نے کئی دوسرے سینیئر افسران کی موجودگی کے باوجود اعظم خان کو اپنا پرنسپل سیکرٹری تعینات کر دیا جو پاکستان میں بیوروکریسی کا سب سے اہم عہدہ سمجھا جاتا ہے۔  گذشتہ تین دہائیوں سے بیوروکریسی کی رپورٹنگ کرنے والے انگریزی اخبار دی نیوز کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن انصار عباسی کے مطابق وزیراعظم کا پرنسپل سیکریٹری اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ بعض اوقات وفاقی وزرا بھی اس سے کم اثرو رسوخ رکھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سیاسی رہنما اس عہدے کے حوالے سے شاکی نظر آتے ہیں۔ انصار عباسی کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد بھی اسی طاقت کے باعث وزیراعظم کے داماد کیپٹن صفدر کی تنقید کا نشانہ بنتے رہے۔

’چھپے رستم ہر حکمران کی مجبوری ہوتے ہیں‘

دی نیوز کے سینئیر صحافی طارق بٹ کے مطابق حکمرانوں کے نزدیک رہنے والے اس طرح کے افسران خاصے طاقت ور ہوتے ہیں اور اقتدار کے ایوانوں میں جلد یہ خبر مشہور ہو جاتی ہے کہ حکمران تک پہنچنے کا راستہ انہی سے گزرتا ہے۔ یہ چھپے رستم ہوتے ہیں اور حکومت کے کئی اہم فیصلوں کے پیچھے اصل میں یہی افسران ہوتے ہیں۔
کئی دہائیوں سے شہر اقتدار اسلام آباد میں رپورٹنگ کرنے والے ڈان کے سابق ریزیڈنٹ ایڈیٹر ضیا الدین کہتے ہیں کہ ’ہر حکمران کے چند لوگ خاص ہوتے ہیں جس پر اس کا انحصار ہوتا ہے۔جب یہ خاص لوگ کسی سے کوئی بھی بات کرتے ہیں تو سب سمجھ جاتے ہیں کہ یہ بات حکمران کی طرف سے ہی آئی ہے۔‘
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ضیا الدین کا کہنا تھا کہ جب بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں ان کے اور صدر غلام اسحاق کے درمیان اختلافات چل رہے تھے تو زیادہ تر سرد جنگ وزیراعظم سیکرٹریٹ اور صدر کے دفتر کے لوگ کر رہے تھے اور دونوں براہ راست کھل کر اختلاف کا اظہار نہیں کر رہے تھے۔ گویا اپنے قابل اعتماد لوگوں کے زریعے سے ہی بات آگے بڑھائی جا رہی تھی۔ 
ضیا الدین کے مطابق یہ حکمرانوں کی بھی مجبوری ہوتئ ہے کہ انکو قابل اعتماد اور رزدان افراد کی ضرورت ہوتی ہے اور پاکستان جیسے ملکوں میں ایسے افراد کی تعداد ایک دو ہی ہوتی ہے حالانکہ اصولا تو فیصلے کابینہ کی سطح پر وسیع مشاورت سے ہونے چاہیئں مگر ہمارے ہاں کوئی وزیراعظم نہیں چاہتا کہ وہ صرف کابینہ کے ایک عام رکن کی طرح  ہی رائے دے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ وہ فیصلہ سنائے اور باقی سب مانیں۔

شیئر: