Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لشکرگاہ میں شدید لڑائی، ’ہم برباد ہو رہے ہیں‘

افغان وزیر دفاع بسم اللہ محمدی نے کہا ہے کہ انہیں اور ان کے خاندان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
افغانستان کے شہر لشکر گاہ میں بدھ کو افغان فوج کی طالبان کے خلاف بڑی جوابی کارروائی کے ساتھ ہی متعدد خاندان اپنے گھروں کو چھوڑ کر نکل گئے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق لشکر گاہ میں ہونے والی اس لڑائی میں پہلے ہی درجنوں عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
لشکر گاہ کے ایک شہری صالح محمد نے کہا ہے کہ منگل کو فوج نے جب لوگوں کو اپنے گھر چھوڑنے کا کہا تو سینکڑوں خاندان گھر چھوڑ کر نکل گئے لیکن بہت سارے وہاں پھنس کر رہ گئے ہیں۔
صالح محمد نے بتایا کہ ’وہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ لڑائی جاری ہے اور اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ ہم راستے میں مارے نہیں جائیں گے۔
حکومت اور طالبان دونوں ہمیں برباد کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ طالبان نے امریکی فوج کے پیدا کردہ خلا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے افغانستان کے وسیع دیہی علاقوں سمیت اہم سرحدی علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
اب وہ صوبہ ہرات میں ایک ہفتے کی شدید لڑائی کے بعد دیگر شہروں لشکر گاہ اور قندھار کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

وزیر دفاع پر حملہ

گذشتہ روز افغانستان کے دارالحکومت کابل کے انتہائی محفوظ سمجھے جانے والے گرین زون کے قریب کار بم دھماکے میں چھ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق سکیورٹی حکام نے بتایا ہے کہ منگل کی رات کو ہونے والے حملے میں ہلاک ہونے والوں میں تین عام شہری بھی شامل ہیں۔

صالح محمد نے کہنا ہے کہ سینکڑوں خاندان گھر چھوڑ کر نکل گئے لیکن بہت سارے وہاں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

افغان وزارت صحت کے ترجمان غلام دستگیر نزاری کے مطابق اس حملے میں کم سے کم سات افراد زخمی ہوئے ہیں۔ وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نے بتایا کہ سکیورٹی فورسز کے اس آپریشن میں تمام حملہ آور ہلاک ہو گئے ہیں۔
ایک سینیئر سکیورٹی افسر نے کہا ہے کہ ’یہ کار بم دھماکہ تھا جس میں افغانستان کے وزیر دفاع کی رہائش گاہ کو نشانہ بنایا گیا تھا جو کہ رکن پارلیمنٹ کے گھر کے ساتھ واقع ہے۔‘
خیال رہے جب سے جوبائیڈن انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ امریکی فوج ستمبر تک افغانستان سے نکل جائے گی، اس کے بعد سے طالبان نے افغانستان کے اہم شہروں پر حملوں کے سلسلے کو تیز کر دیا ہے۔ اس دوران طالبان نے کابل کے محفوظ ترین سمجھے جانے والے علاقوں پر بھی حملے کیے ہیں۔
طالبان نے بدھ کو کہا ہے کہ ان کے جگنجوؤں نے کابل میں افغان وزیر دفاع کو ہدف بناتے ہوئے یہ حملہ کیا تھا اور دیگر سرکاری عہدے داروں پر حملوں کی دھمکی بھی دی ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’گزشتہ رات وزیر دفاع کے گھر پر فدائی حملہ کیا گیا ہے اور انہوں نے مزید کہا کہ اعلیٰ عہدے داروں کے خلاف مزید ’انتقامی حملوں‘ کی منصوبہ بندی بھی کی گئی ہے۔ 
کابل کے گرین زون کے قریب ہونے والے اس حملے کے بعد سینکڑوں عام شہری سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے افغانستان کی سرکاری فوج کی حمایت میں ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگائے۔

وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نے بتایا کہ سکیورٹی فورسز کے اس آپریشن میں تمام حملہ آور ہلاک ہو گئے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

رات کو شروع ہونے والی یہ ریلی شہر میں پھیل گئی، اس ریلی میں مردوں کے علاوہ کچھ خواتین بھی موجود تھیں جنہوں نے موم بتیاں اور افغانستان کے پرچم ہاتھوں میں تھامے ہوئے تھے۔
کابل میں احتجاج کرنے والے ایک شخص نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنےکی شرط پر کہا کہ ’جو کچھ افغانستان میں ہو رہا ہے، اس پر ساری دنیا خاموش ہو سکتی ہے لیکن ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ ہم آخری سانس تک اپنی فوج کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔‘
ملک کے نائب صدر امراللہ صالح نے کہا ہے کہ یہ مظاہرے ’جذبات اور حب الوطنی کے اظہار‘ کے ’تاریخی لمحات‘ میں سے تھے۔ جب سکیورٹی فورسز نے طالبان کو پسپا کر دیا تو انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ’اللہ اکبر، طالبان دہشت گردوں اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کی موت ہے۔‘
خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے افغان صوبے ہرات کے مغربی علاقوں کے شہریوں نے بھی طالبان کے خلاف اور سرکاری سیکیورٹی فورسز کی حمایت میں مظاہرے کیے تھے جو اب دوسرے شہروں میں بھی پھیل رہے ہیں۔
منگل کو ہونے والے اس حملے کے بعد وزیر دفاع بسم اللہ محمدی نے کہا ہے کہ انہیں اور ان کے خاندان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تاہم ان کے چند محافظ زخمی ہوئے ہیں۔
کابل پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ حملے کے مقام سے کم ازکم 30 شہریوں کو باحفاظت نکالا گیا ہے۔ شہر کے ایمرجنسی ہسپتال کے مطابق ان کے پاس اس حملے میں زخمی ہونے والے 11 افراد پہنچے  ہیں۔
دوسری جانب طالبان نے کہا ہے کہ انہوں نےمنگل کو وردک صوبے کے گورنر کو ہلاک کیا ہے۔
یہ تازہ حملہ طالبان کے ان حملوں کے سلسلے کا ایک حصہ ہے جس کے تحت سرکاری عہدے داروں اور سماجی کارکنوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

شیئر: