Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اگر ٹک ٹاک بند کرنا ہے تو پھر گوگل بھی بند کردیں: اسلام آباد ہائیکورٹ

چیف جسٹس نے کہا کہ ‘ایسی ویڈیوز تو یوٹیوب پر بھی ہیں تو کیا آپ یوٹیوب پر پابندی لگا دیں گے؟ (فوٹو اے ایف پی)
اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹک ٹاک پر پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے عائد پابندی  کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا ہے کہ ’اگر ٹک ٹاک بند کرنا ہی مسئلہ کا واحد حل ہے تو پھر گوگل بھی بند کردیں۔‘  
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’ٹک ٹاک پر پابندی لگانے کے حوالے سے پی ٹی اے عدالت کو مطمئن کرے۔‘
جمعے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست گزار کی جانب سے مریم فرید ایڈوکیٹ جبکہ پی ٹی اے کی جانب سے منور اقبال دگل عدالت پیش ہوئے۔  
چیف جسٹس نے کہا کہ ’عدالت کو مطمئن کریں کہ پی ٹی اے نے ٹک ٹاک کے فوائد اور نقصانات پر کیا ریسرچ کی ہے اور دنیا بھر میں ٹک ٹاک پر کہاں کہاں پابندی عائد کی گئی ہے؟‘ 
وکیل پی ٹی اے نے بتایا کہ ’انڈیا اور انڈونیشیا سمیت دیگر ممالک میں ٹک ٹاک بند ہے، انڈیا میں ٹک ٹاک پر پابندی سکیورٹی کی وجہ سے لگائی گئی ہے۔‘
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’انڈیا نے ٹک ٹاک پر پابندی سکیورٹی کی وجہ سے نہیں بلکہ چینی کمپنی ہونے کی وجہ سے لگائی ہے، کیا پی ٹی اے انڈیا کی پالیسی کے ساتھ ہے؟‘
 اطہر من اللہ کے استفسار پر پی ٹی اے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ’پشاور اور سندھ ہائی کورٹ نے پابندی لگانے اور میکنزم بنانے کا کہا تھا۔‘
چیف جسٹس کی ہدایات پر وکیل پی ٹی اے نے سندھ ہائی کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے پڑھ کر سنائے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’دونوں فیصلے میں کہیں نہیں لکھا کہ آپ ٹک ٹاک کو مکمل طور پر بند کر دیں۔‘ 
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ‘ایسی ویڈیوز تو یوٹیوب پر بھی ہیں تو کیا آپ یوٹیوب پر پابندی لگا دیں گے؟ یہ 21 ویں صدی ہے اس میں لوگوں کا ذریعہ معاش سوشل میڈیا ایپس سے جڑا ہے۔‘
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’پی ٹی اے نے دونوں عدالتوں کے فیصلوں کا غلط استعمال کیا، آپ کو میکنزم بنانے کا کہا گیا ہے، آپ کے پاس کیا اختیار ہے ٹک ٹاک بند کرنے کا؟‘
انہوں نے استفسار کیا کہ جس بنیاد پر ٹک ٹاک بند کی گئی اس بنیاد پر دیگر ایپس کیوں بند نہیں کیں؟ 

وکیل پی ٹی اے نے بتایا کہ ’ٹک ٹاک ہمارے ساتھ تعاون نہیں کر رہی (فوٹو اے ایف پی)

جس پر پی ٹی اے کے وکیل نے جواب دیا کہ سوشل میڈیا کی باقی ایپس میں چیزوں کو سرچ کرنا پڑتا ہے، جبکہ ٹک ٹاک پر نازیبا اور غیر اخلاقی مواد خود ہی آجاتا ہے۔ 
وکیل پی ٹی اے نے بتایا کہ ٹک ٹاک کو پیکا ایکٹ کے تحت بلاک کیا گیا۔ جس پر عدالت نے استفسار کیا کیا پیکا ایکٹ دیگر ایپس پر اپلائی نہیں ہوتی؟ ایسی کون سی ایپ ہے جس میں غلط چیز نہ ہو؟  
وکیل پی ٹی اے نے بتایا کہ ’ٹک ٹاک ہمارے ساتھ تعاون نہیں کر رہی اس لیے ہم نے پابندی لگا دی۔ ہم نے مستقل پابندی نہیں لگائی صرف میکنزم طے کرنے کے لیے پابندی لگائی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ سب کے لیے میکینزم بنایا جائے گا۔‘
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سیکرٹری وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا ہے، جبکہ پی ٹی اے کو ہدایت کی گئی ہے کہ پی ٹی اے اس حوالے سے حکومت سے مشاورت کر کے میکینیزم تیار کرے۔ 
عدالت نے فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت 23 اگست تک ملتوی کردی۔

شیئر: