Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماریہ میمن کا کالم: ن لیگ اور قیادت کا بحران

ن لیگ کی روایتی گروپ بندی اپنی جگہ مگر اب بات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ن لیگ میں دراڑ اور گروپنگ کوئی نئی بات نہیں۔ جب پارٹی وفاق اور پنجاب دونوں جگہ بلا شرکت غیرے اقتدار میں تھی اس وقت بھی اس کے طاقتور وزرا کے  آپس میں اختلافات شدید اور سب کے سامنے تھے۔
پھر شہباز شریف اور نواز شریف کی سوچ کا فرق بھی واضح رہا ہے  خصوصا پانامہ کیس اور اس کے بعد کے حالات میں بھی شہباز شریف کا رویہ محتاط ہی رہا ہے۔ مبصرین کے خیال میں یہ مختلف الخیالی کئی وجہ سے قصداً بھی تھی اور ن لیگ کو اس کا فائدہ ہی ہوا ہے۔
ن لیگ میں ہر طبقہ فکر کی نمائندگی بھی رہی اور اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے لچک اور سختی دونوں کو حسب موقع استعمال میں لایا گیا۔ ایک خاص حد تک اس حکمت عملی کی کامیابی کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ اختلاف خاندان کے اندر تک نہیں پہنچا یا اگر پہنچا بھی تو باہر تک اس کی خبر یا اثرات محسوس نہیں ہوئے۔
ن لیگ کی روایتی گروپ بندی اور اس کے اثرات اپنی جگہ مگر اب بات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ شاہد خاقان پارٹی صدر اور اپنے لیڈر کے بھائی پر اعتراض کرتے نظر آتے ہیں اور رانا تنویر جیسے سینیئر پارلیمانی لیڈر ان پر کھلے عام تنقید کر رہے ہیں۔ مریم نواز کے حامی سوشل میڈیا اکاؤنٹس شہباز شریف کے خلاف کمپین چلاتے ہیں جبکہ شہباز شریف نے الیکشن ریلیوں میں مریم نواز کی موجودگی کی وجہ سے کنارہ کشی میں ہی عافیت سمجھی۔
خاندانی سیاسی اختلافات بھی اب ڈھکی چھپی بات نہیں اور اختلاف بھی بیچ چوراہے یعنی ٹی وی پر پھوٹ رہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ن لیگ کا ن یعنی نواز شریف اس سارے معاملے میں کہاں ہیں؟ ایک بات تو ظاہر ہے کہ خاندان سے باہر کی سیاسی قیادت پارٹی کی پالیسی کے بارے میں اگر بے خبر نہیں تو کنفیوزڈ ضرور ہے۔
بلکہ اب تو یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ خاندان کے پاس واضح ہدایات موجود ہیں ورنہ مریم نواز اور شہباز شریف کے بیانیے میں اتنا واضح فرق نہ ہوتا۔ پھر پالیسی کے ساتھ ساتھ لمحہ ب لمحہ سیاسی بیانیے میں بھی ن لیگ کے لیڈر بے خبر نظر آتے ہیں۔ مثلا نواز شریف کے لندن میں قیام اور اس کے بعد ٹھہرنے یا نکلنے کے بارے میں کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔

ایک رائے یہ ہے کہ نواز شریف آخری وقت تک تمام کارڈ اپنے سینے سے لگا کر رکھتے ہیں اور عین وقت پر سرپرائز دیں گے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

نواز شریف کی  آئندہ پالیسی اور حکمت عملی  کے بارے میں تین مختلف رائے ہیں۔ پہلی رائے تو یہ ہے کہ وہ آخری وقت تک تمام کارڈ اپنے سینے سے لگا کر رکھتے ہیں اور عین وقت پر سرپرائز دیں گے۔ میاں صاحب جو کرنا چاہتے ہیں وہ بہتر سمجھتے ہیں، یہی سبق ن لیگ کے لیڈروں کو پڑھایا گیا ہے اور یہی سبق تندہی سے دہراتے پائے جاتے ہیں۔ اپنی رائے کے دفاع میں وہ ماضی کی مثالیں بھی دیتے ہیں کہ کس طرح نواز شریف نے بار بار سیاسی سرپرائز دیے ہیں اور آئندہ بھی وہ سب کو حیران کر دیں گے۔
دوسری رائے زیادہ قنوطیت پر مبنی ہے۔ اس رائے کے مطابق نواز شریف نا تو 1999 میں ہیں اور نا ہی 2008 میں۔ یہ 2021 ہے اور اب ان کے ترکش میں زیادہ تیر باقی نہیں رہے۔
اس مفروضے کے مطابق وہ اپنی صاحب زادی کے بیانیے کے ہی طرفدار ہیں مگر اپنی پارٹی اور الیکٹیبلز کو اس پر مجبور یا مطمئن نہیں کر رہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پارٹی ڈسپلن کی دراڑیں اب عیاں ہو چکی ہیں۔
تیسری رائے یا تیسری آپشن  ڈیل کی تھیوری ہے۔ اس کے مطابق نواز شریف کے ساتھ ایک ٹائم لائن مقرر ہے جس کے مطابق وہ واپس آئیں گے اور اس وقت ن لیگ کی ہلکی پھلکی موسیقی چلتی رہے گی۔ جونہی نواز شریف واپس آئیں گے یا اپنی واپسی کا اعلان کریں گے تو تمام پارٹی کا اعتماد بحال ہو گا، اختلافات پس پشت رہ جائیں گے اور پارٹی پھر متحد ہو کر انتخابی میدان میں اتر جائے گی۔

مسلم لیگ ن کا موجودہ بحران نواز شریف کی قیادت کے ساتھ ساتھ سیاست کا بھی امتحان ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ان تینوں آپشنز میں سے بھی ہٹ کر جو اختلافات اب دیکھے گئے ہیں اس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔ پارٹی میں بھی ایک تھکاوٹ اور بے سمتی عیاں ہے۔
یہ پی ٹی ائی کے لیے ایک خوش کن خبر ہے کو کافی عرصے سے ن اور ش کی گردان کر رہے ہیں۔ اب پی ٹی ائی ایک طرف سیاسی طور پر اپنے مزید قدم جما رہی ہے اور دوسری طرف ن لیگ کا بیانیہ تو بوجھل تھا ہی اب اس بیانیے کو پیش کرنے والی آوازیں بھی ایک دوسرے کی ہاں میں ہاں ملانے کی بجائے ایک دوسرے کی نفی کر رہی ہیں۔
یہی وہ  قیادت کا بحران ہے جس کا ن لیگ کو اب سامنا ہے۔ یہ بحران نواز شریف کی قیادت کے ساتھ ساتھ سیاست کا بھی امتحان ہے۔ دیکھنا ہے کہ وہ اس بحران کو پس پردہ رہ کر ہی نمٹتے ہیں یا سامنے آ تے ہیں۔ یہ بات مگر طے ہے کہ معاملات اب فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکے ہیں اور اگلے کچھ مہینے اس کا تعین کریں گے۔

شیئر: