Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماریہ میمن کا کالم: کشمیر الیکشن اور پاکستانی سیاست

کشمیر کے انتخابات میں مسلم لیگ ن سے سب سے زیادہ متحرک ہے۔ فوٹو: ٹوئٹر مریم نواز
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں الیکشن کا ہنگامہ اپنے زوروں پر ہے۔ تینوں بڑی جماعتوں نے الیکشن مہم برپا کر رکھی ہے جس کی وجہ سے روزانہ ٹی وی پر سرگرمی نظر آ جاتی ہے۔ اگرچہ روایتی طور پر گلگت بلتستان کی طرح حالیہ روایت یہی ہے کہ وفاقی حکومت کی حمایت یافتہ جماعت ہی کامیاب ہوتی ہے مگر یہ الیکشن کچھ مخصوص پہلوؤں کی وجہ سے خاص اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ 
سب سے پہلے تو یہاں متواتر انتخابات کی ایک صحتمند روایت موجود ہے۔ پاکستان میں وفاق کی سطح پر جمہوریت کو کئی دفعہ بریک لگی مگر آزاد کشمیر میں مسلسل الیکشن اور اس کے نتیجے میں منتخب حکومتیں آتی رہی ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کے اس طرح تنازعات بھی نہیں دیکھے گئے جس طرح پاکستان میں عام انتخابات میں نظر آئے ہیں۔ امید ہے کہ یہ بہتر روایت اس دفعہ بھی برقرار رہے گی اور انتقال اقتدار کا عمل خوش اسلوبی سے طے پائے گا۔ 
تینوں بڑی سیاسی جماعتوں میں سے سب سے زیادہ متحرک ن لیگ نظر آ رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ مریم نواز ہیں جو اب اپنی پارٹی کی الیکشن سپیشلسٹ کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ اس میں ان کی اپنی بھی دلچسپی صاف ظاہر ہے کیونکہ عام طور پر سیاستدانوں کے متحرک رہنے کے دو ہی میدان ہیں۔ ایک پارلیمنٹ اور دوسرا ٹی وی ٹاک شوز۔
پارلیمنٹ میں وہ ہیں نہیں اور ٹاک شوز سے ابھی تک بچ کر چل رہی ہیں۔ اس لیے اگر الیکشن اور جلسے نہ ہوں تو ٹوئٹر ہی ان کا واحد فورم رہ جاتا ہے۔ انتخابی جلسے ان کے لیے ’اِن‘ رہنے کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔
پی ڈی ایم کے ختم یا غیر فعال ہونے کے بعد وہ اگر اسلام آباد میں ہونے والی سیاسی بیٹھکوں میں شمولیت نہیں کر سکتیں تو اس کے متبادل کے طور پر جلسوں میں دھواں دھار تقاریر کر رہی ہیں۔  
مریم نواز کی تقاریر کے بارے میں دو عوامل قابل ذکر ہیں۔ ایک تو ان کا ہدف ہمیشہ کی طرح وزیراعظم عمران خان ہیں مگر کشمیر کی مناسبت سے ان کی طرف سے سخت اور تلخ زبان استعمال کی جا رہی ہے۔

بلاول بھٹو کے حالیہ بیانات میں نواز شریف کو نشانہ بنایا گیا۔ فوٹو: ٹوئٹر بلاول بھٹو

دوسری طرف ان کے اس بیانیے کی ان کی اپنی جماعت کے سینیئر رہنماؤں کی طرف سے تائید ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے۔ ان کی تقریروں کا الیکشن میں اثر کا تو اندازہ بعد میں ہو گا مگر اس کا فوری اثر اسلام آباد میں محسوس بھی ہو رہا ہے اور حکومتی حلقوں کی طرف سے اس کا جواب بھی دیا جا رہا ہے۔
وزیر اطلاعات اور وزیر داخلہ کی طرف سے بھی بیانات سامنے آئے ہیں اور ان کے اپنے بیانیے کے جواب میں جو الزامات وہ عمران خان پر لگا رہی ہیں وہ واپس ان کی طرف پلٹ کر بھی لگ رہے ہیں۔  
پیپلز پارٹی نے ابتدائی مہم چلائی مگر اس کے بعد اب کچھ خاص جان نظر نہیں آ رہی۔ جس طرح مریم نواز ن لیگ کی الیکشن مہم کی بذات خود انچارج ہوتی ہیں اسی طرح پیپلز پارٹی پلاننگ کے تحت بلاول بھٹو زرداری کو ہی سامنے لاتی ہے۔
اس میں مقصد سیاسی مشق بھی ہوتی ہے اور یہ امید بھی کہ شاید وفاقی سطح پر پارٹی کا کوئی امیج بحال ہو سکے۔ سرِ دست اس میں کوئی قابل ذکر کامیابی ہوتی نظر نہیں آئی مگر کوشش بدستور جاری ہے۔  
اس بار البتہ پی پی پی کی حکمت عملی نے پی ٹی آئی سے زیادہ ن لیگ کو حیران کیا ہے۔ جی بی کے انتخابات والا بھائی چارہ تو کب کا ہوا ہُوا بلکہ نواز شریف، بلاول اور آصف زرداری کا خاص ہدف بنتے نظر آئے۔ کئی دفعہ تو یہ بھی گمان ہوا کہ یہ بیانات پی ٹی آئی کے وزیروں کے ہیں۔

پی ڈی ایم کے عملاً غیر مؤثر ہونے کے بعد حکومت کو سیاسی خطرہ نہیں ہے۔ فوٹو اے ایف پی

پی ٹی آئی اور پی پی پی کے خصوصاً سندھ سے باہر نظریاتی فاصلے کم سے کم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی شاہد خاقان کی طرف سے بھی جواب آں غزل آیا۔ اس تبادلۂ بیانات کو پیپلز پارٹی کے معتدل رہنماؤں کی طرف سے ڈاؤن پلے کیا گیا مگر یہ حقیقت اب واضح ہے کہ شہباز شریف کے ساتھ تو شاید کوئی ورکنگ ریلیشن شپ رہے مگر مریم نواز کے ساتھ پیپلز پارٹی کی فی الحال مخاصمت ہی ہے۔  
پی ٹی آئی کی طرف سے کشمیر انتخابات کو بظاہر نارمل سطح پر ہی لیا جا رہا ہے۔ البتہ حکومت میں ہوتے ہوئے کئی طرح سے انتخابات میں اَپر ہینڈ ہوتا ہے۔
حکومت کے اپنے الیکشن سپیشلسٹ وزرا مراد سعید اور علی امین گنڈا پور متحرک ہیں مگر دیگر اہم وزرا اور وزیراعظم اپنی معمول کی سرگرمیوں میں ہی مشغول نظر آتے ہیں۔ اس سے حکومت کی طرف سے یہ تاثر بھی دیا جا رہا ہے کہ ان کی جیت یقینی ہے اور ان کو اس کے لیے خاص محنت کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔
حالیہ بجٹ اور اس کے تسلی بخش طور پر منظور ہونے کے بعد حکومت کا اعتماد بھی کافی بحال ہوا ہے دوسری طرف پی ڈی ایم کے عملاً غیر مؤثر ہونے کے بعد ان کو سیاسی خطرہ بھی نہیں ہے۔ اسی لیے گراؤنڈ سے یہی خبریں آ رہی ہیں کہ کشمیر انتخاب میں کسی خاص سرپرائز کی توقع نہیں ہے اور نتیجہ روایت کے مطابق ہی ہو گا۔ اس صورت میں ملکی سیاسی صورتحال بدستور حکومت کے حق میں رہتی نظر آ رہی ہے۔  

شیئر: