Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعلیٰ بلوچستان اور سپیکر میں اختلافات، کیا ’باپ‘ میں پھوٹ پڑ چکی؟

وزیراعلیٰ جام کمال نے جواب میں عبدالقدوس بزنجو کو آواران کی تباہی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ بزنجو پہلے دن سے پارٹی توڑنے کی نیت سے آئے۔(فوٹو:ٹوئٹر)
بلوچستان کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) سے تعلق رکھنے والے وزیرِاعلیٰ جام کمال اور سپیکر صوبائی اسمبلی عبدالقدوس بزنجو کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں۔ دونوں نے ایک دوسرے پر شدید تنقید کی ہے۔
سپیکرعبدالقدوس بزنجو نے الزام لگایا کہ وزیراعلیٰ جام کمال پارٹی کے سینیئر ارکان کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنا کر ان کو سیاسی نقصان پہنچا رہے ہیں، وزیراعلیٰ ہاؤس میں عوام کو جانے کی اجازت نہیں اس پر ڈیڑھ ارب روپے خرچ ہو رہے ہیں لیکن صوبائی اسمبلی کے لیے دو روپے کے فنڈز بھی جاری نہیں کیے جا رہے۔
وزیراعلیٰ جام کمال نے جواب میں عبدالقدوس بزنجو کو آواران کی تباہی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ بزنجو پہلے دن سے پارٹی توڑنے کی نیت سے آئے، پارٹی کو اب تک جو بھی نقصان ہوا ہے اس میں ان کی سازشوں کا ہاتھ ہے۔
تجزیہ کاروں کے بقول وزیراعلیٰ اور سپیکر میں آج سے نہیں بلکہ باپ پارٹی کی تشکیل کے وقت سے اختلافات موجود تھے مگر اب جس سطح پر یہ اختلافات پہنچ گئے ہیں، اس کے نتیجے میں صوبے میں سیاسی گرما گرمی میں اضافہ اور تبدیلیوں کا امکان ہے۔
عبدالقدوس بزنجو نے کیا کہا؟
عبدالقدوس بزنجو نے دو روز قبل ایک ویڈیو بیان میں وزیراعلیٰ جام کمال کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان پر حلقے میں مداخلت، فنڈز نہ دینے اور پارٹی کو نقصان پہنچانے کے الزامات لگائے۔ 
قدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ ہم نے تین سال پہلے حکومت گرا کر ایک جماعت بنائی تاکہ صوبے کے عوام کی محرومیاں دور کریں، ہم سب نے مل کر جام کمال کو پارٹی کا صدر بنایا مگر انہوں نے پارٹی بہتر بنانے کی بجائے پارٹی کے سینئر ارکان کو سیاسی نقصان پہنچانے اور انتقام کا نشانہ بنانا شروع کردیا تاکہ کوئی ان کے خلاف نہ بولے۔ سردار صالح بھوتانی بھی اس کی مثال ہیں۔
عبدالقدوس بزنجو کے بقول ’وزیراعلیٰ تین سال مسلسل میرے حلقے میں مداخلت کرتا رہا، وہاں سیاسی طور پر نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا رہا۔ میں باہر خاموش رہا مگر پارٹی کے اندر بارہا ان خدشات کا اظہار کیا، اس کے باوجود وزیراعلیٰ نے اپنے رویے میں تبدیلی نہیں لائی۔‘

جمعرات کو سپیکر عبدالقدوس بزنجو نے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں ایک بار پھر جام کمال اور ان کی حکومت پر شدید تنقید کی۔(فائل فوٹو)

ان کا کہنا تھا کہ ’سپیکر اور پارٹی میں سینئر ہونے کی حیثیت سے میرا حق بنتا تھا کہ مجھے زیادہ سے زیادہ فنڈز دیے جاتے مگر جام صاحب نے میرے علاقے کو نظرانداز کیا۔ جام صاحب اپنے رویے میں تبدیلی نہیں لاتے تو ہم خاموش نہیں رہیں گے۔‘
جمعرات کو سپیکر عبدالقدوس بزنجو نے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں ایک بار پھر جام کمال اور ان کی حکومت پر شدید تنقید کی۔ اپوزیشن کی جانب سے اسمبلی کے مائیک خراب ہونے کی شکایت پر سپیکر نے کہا کہ تین سال گزرنے کے باوجود حکومت نے صوبائی اسمبلی کے مائیک ٹھیک کرنے کے لیے فنڈز نہیں دیے، ایک بلب بھی فیوز ہو جائے تو ہمیں محکمہ خزانہ سے کہنا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبائی اسمبلی صوبے کا چہرہ ہے، یہاں عوامی نمائندے بیٹھتے ہیں، اس کے لیے دو روپے کے فنڈز جاری نہیں کیے جارہے جبکہ وزیراعلیٰ ہاؤس جہاں عوام کا داخلہ بند ہے اور عوامی نمائندوں کو بھی انتظار کرایا جاتا ہے، پر ڈیڑھ ارب روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔
وزیراعلیٰ جام کمال کا جواب 
بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے عبدالقدوس بزنجو کے الزامات کا سخت جواب دیتے ہوئے انہیں سپیکر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں ٹھیک سے نبھانے کا مشورہ دیا ہے۔ وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ کیا کبھی ایوان اتنی غیر ذمہ داری، غیر سنجیدگی اور غیر دلچسپی سے چلا ہے جو اب چل رہا ہے؟ 
وزیراعلیٰ نے جون میں بجٹ اجلاس کے موقع پر اپوزیشن کے احتجاج کے دوران ہنگامہ آرائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اسمبلی پر حملے کی پوری ذمہ داری سپیکر پر عائد ہوتی ہے جو قریب ہی سرینا ہوٹل میں بیٹھ کر تماشا دیکھ رہے تھے۔ 
جام کمال نے کہا کہ موصوف اپنے حلقے پر توجہ دیں جہاں وہ تین سال میں ایک بار بھی نہیں گئے، جو شخص اپنا حلقہ چلا سکے اور نہ ہی اسمبلی، وہ اپنے بچگانہ مشورے اپنے پاس رکھے اور کام کر توجہ دے۔ 
حلقے میں مداخلت کے الزام پر وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ’آواران کو تباہی تک لے جانے والا شخص چاہتا ہے کہ صوبے کا حال بھی ایسا کر دے۔ میں ایک غیرسنجیدہ شخص کے ہاتھوں آواران کو اس طرح بے یارومددگار نہیں چھوڑ سکتا۔لوٹ مار کا بازار گرم ہو، منصوبے تباہ ہوں اور ہم کچھ نہ کریں، ایسا نہیں ہو سکتا۔ حکومت نے پہلے بھی ایکشن لیا اور اب بھی لے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پارٹی بہتر ہورہی ہے۔ جو بھی نقصان ابھی تک ہوا ہے اس میں قدوس بزنجو کی سازشوں کا بڑا ہاتھ ہے، جو شخص پہلے دن سے پارٹی کو توڑنے کی نیت سے آیا ہوں، وہ پارٹی بہتر بنانے کا درس نہ دے۔ برداشت کی حد ہوگئی ہے، ان کے بار بار کے ڈرامے سب پر عیاں ہوگئے ہیں۔
عبدالقدوس بزنجو کون؟
بلوچستان کے سب سے پسماندہ ضلع آواران سے تعلق رکھنے والے عبدالقدوس بزنجو بلوچستان عوامی پارٹی کے سینئر رہنما ہیں۔ اس سے پہلے وہ مسلم لیگ ق کا حصہ تھے۔ 2002 سے 2008 تک وہ جام کمال کے والد جام یوسف کی کابینہ میں صوبائی وزیر رہے۔ 2013 کے انتخابات میں آواران سے صرف 544 ووٹ لے کر دوسری بار رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔
عبدالقدوس بزنجو2013 سے 2015 تک بلوچستان اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر اور پھر جان محمد جمالی کے استعفے کے بعد 2017 کے آخر تک سپیکر رہے۔ جنوری 2018 میں اپنی ہی اتحادی جماعت ن لیگ کی حکومت گرا کر وزیراعلیٰ بلوچستان بنے اور چھ ماہ تک اس منصب پر فائز رہے۔ اسی دوران بلوچستان عوامی پارٹی(باپ) کے نام سے نئی جماعت کی بنیاد رکھی گئی۔
کوئٹہ کے سینئر و تجزیہ کار صحافی عرفان سعید کا کہنا ہے کہ عبدالقدوس بزنجو اور جام کمال کے درمیان باپ پارٹی کی تشکیل کے وقت سے ہی اختلافات تھے۔ عبدالقدوس بزنجو پارٹی کی سربراہی اور وزارت اعلیٰ کے امیدوار تھے مگر دونوں عہدے جام کمال خان کو ملے۔ اس کے بعد سے ہی دونوں کے درمیان سیاسی رسہ کشی چلی آرہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے جب جام اور بزنجو کے درمیان اختلافات میں شدت آئی تو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے ان کی صلح کرائی، اس بار معاملہ سلجھتا ہوا نہیں دکھائی دے رہا لہٰذا کسی ایک کو جانا پڑے گا۔ انہوں نے بتایا کہ عبدالقدوس بزنجو کے سردار اختر مینگل کی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی یا پیپلز پارٹی میں جانے کے امکانات ہیں۔ دونوں جماعتیں ان سے قریبی رابطے میں ہیں۔

عبدالقدوس بزنجو2013 سے 2015 تک بلوچستان اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر اور پھر جان محمد جمالی کے استعفے کے بعد 2017 کے آخر تک سپیکر رہے۔(فوٹو:اے پی پی)

کوئٹہ پریس کلب کے صدر سینئر صحافی عبدالخالق رند کا کہنا ہے کہ جس روزویڈیو بیان دیا،اسی رات سابق صدر آصف زرداری نے ان سے رابطہ کیا، شاید اب وہ کسی نئی جماعت کا حصہ بن جائیں۔انہوں نے بتایا کہ جام کمال اور عبدالقدوس بزنجو کے درمیان شروع سے ہی کوئی انڈرسٹینڈنگ دیکھنے کو نہیں ملی۔ اس طرح لگ ہی نہیں رہا کہ وزیراعلیٰ اور سپیکر جیسے صوبے کے دو اہم عہدوں پر موجود افراد کا تعلق ایک ہی جماعت سے ہے۔
عبدالخالق رند کا کہنا ہے کہ عبدالقدوس بزنجو نے پہلے بھی جام کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی کوششیں کی ہیں،وہ جام کے مخالف باپ پارٹی کے سینئر پارلیمنٹرین سردار صالح محمد بھوتانی اور بلوچستان حکومت میں شامل اتحادی جماعت تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند سے رابطے میں تھے۔
ان کے بقول ’سردار صالح بھوتانی اور سردار  یار محمد رند بھی پہلے جام کابینہ کا حصہ تھے مگر ایک سے جام کمال نے وزارت لے لی اور دوسرے نے خود استعفا دیا۔ وزیراعلیٰ نے دو بار صوبائی وزرا کا وفد بھیج کر سردار یار محمد رند کو منانے کی کوشش کی مگر وہ واپس آنے کے لئے تیار نہیں۔‘
عبدالخالق رند نے بتایا کہ یہ تینوں افراد اب کھل کر جام کی مخالفت میں سامنے آ کر ان کی مشکلات میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ ان کے ’باپ‘ اور دیگر جماعتوں کے باقی لوگوں سے بھی رابطے ہیں ایسی صورت میں صوبے میں سیاسی گرما گرمی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جام حکومت سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لاسکتی ہے۔ لگتا ہے کہ عبدالقدوس بزنجو بھی اسپیکر کا عہدہ چھوڑنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہیں۔ جمعرات کو وہ صوبائی اسمبلی کا اجلاس ختم ہونے کے بعد پروٹوکول کے بغیر گھر روانہ ہوئے۔ 

شیئر: