Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئٹہ میں معروف ٹرانسپورٹر کے گھر 13 سالہ ملازم مبینہ تشدد سے ہلاک

مقتول کے بھائی کے مطابق ٹرانسپورٹر اور ان کے بیٹوں نے چوری کرنے کا الزام لگا کر تشدد کا نشانہ بنایا۔ فوٹو: یونیسیف)
کوئٹہ میں معروف ٹرانسپورٹر کے گھر کم عمر ملازم کو مبینہ طور پر تشدد کر کے قتل کر دیا گیا۔ معاملہ پولیس سے چھپانے کے لیے لاش کی خفیہ تدفین کی گئی تاہم سوشل میڈیا پر تصاویر وائرل ہونے کے بعد پولیس نے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ 
کوئٹہ پولیس کے سریاب ڈویژن کے ایس پی محمد اخلاق تارڑ نے اردو نیوز کو بتایا کہ تھانہ سیٹلائٹ ٹاؤن میں قتل کا مقدمہ مقتول کے چچا کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے تاہم مقتولین کے ورثا نے ابھی تک کسی کو نامزد نہیں کیا۔
’پولیس اپنے طور پر تفتیش کر رہی ہے اور ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی ہے۔ ‘
ایس ایچ او سیٹلائٹ ٹاؤن ثناء اللہ کے مطابق مقتول کے چچا نے پولیس کو بتایا ہے کہ ان کا بھتیجا مہراب پندرانی ٹرانسپورٹر دولت لہڑی کے گھر میں کام کرتا تھا جہاں اسے تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا۔
تاہم مقتول کے چچا نے کسی کو مقدمے میں نامزد نہیں کیا اور بتایا کہ وہ نہیں جانتے کہ ان کے بھتیجے کو کس نے قتل کیا اس لیے پولیس اپنے طور پر تفتیش کر کے معلوم کرے۔  
مہراب کے چچا ہزار خان نے بتایا کہ ‘ہماری جان کو بھی خطرہ ہے، میرے بھتیجے کے قاتل بااثر لوگ ہیں ان کی بلوچستان کی سب سے بڑی ٹرانسپورٹ کمپنی ہے، وہ ہمیں بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں اس لیے ہم نے ایف آئی آر میں نام شامل نہیں کیے۔‘
مقتول کے بھائی سترہ سالہ عمران پندرانی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کے تیرہ سالہ بھائی مہراب پندرانی اور دس سالہ ماموں اختر علی کوئٹہ کے معروف ٹرانسپورٹر کے گھر میں کام کرتے تھے۔ 
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ روز ٹرانسپورٹر اور ان کے بیٹوں نے 32 لاکھ روپے چوری کرنے کا الزام لگا کر بھائی اور ماموں زاد کو انتہائی بے رحمانہ طریقے سے تشدد کا نشانہ بنایا۔

مقتول کے بھائی نے بتایا کہ ’سوشل میڈیا پر معاملہ سامنے آنے کے بعد آج کوئٹہ سے پولیس آئی اور ہمارا بیان ریکارڈ کیا‘ (فوٹو: اردو نیوز)

‘ظالموں نے میرے بھائی کو ہتھوڑوں سے مارا جس کی وجہ سے دونوں پاؤں اور بازوؤں کی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں۔ انہیں کرنٹ لگایا گیا اور جسم کے اعضا گرم سیخ سے جلائے گئے۔ شدید تشدد کی وجہ سے بھائی کی موت ہوگئی جبکہ ماموں شدید زخمی ہیں۔‘
عمران پندرانی نے بتایا کہ ’بھائی کی موت کے بعد پولیس کو بتائے بغیر ٹرانسپورٹر کے لوگوں نے لاش چھپ کر کوئٹہ سے 300 کلومیٹر دور ڈیرہ مراد جمالی میں ہمارے گاؤں پہنچائی اور تدفین کرا دی، ہم نے بھی ڈر کی وجہ سے پولیس کو بتایا اور نہ پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال گئے۔‘
’ہمارے رشتے داروں نے بھائی کے جسم پر واضح دکھنے والے تشدد کی کچھ تصاویر اور ویڈیوز بنائی اور انٹرنیٹ پر دے دیں۔ سوشل میڈیا پر معاملہ سامنے آنے کے بعد آج کوئٹہ سے پولیس آئی اور ہمارا بیان ریکارڈ کیا۔ ‘
انہوں نے بتایا کہ  ’ماموں زاد بھائی اختر علی تاحال لاپتہ ہیں انہیں ہمارے حوالے نہیں کیا گیا۔ اب جب معاملہ سامنے آ رہا ہے تو ہمیں کہہ رہے ہیں کہ ہم نے اسے سندھ کے کسی ہسپتال منتقل کر دیا ہے۔‘
عمران  پندرانی کا کہنا تھا کہ ہماری والدہ معذور ہیں اور والد تین سال پہلے والد وفات پا گئے، غربت کی وجہ سے میں اور بھائی کام کرنے پر مجبور ہوئے۔ بااثر لوگوں سے قانونی جنگ نہیں لڑ سکتے، چیف جسٹس ہمیں انصاف دلائیں۔‘
 اردو نیوز نے موقف جاننے کے لیے ٹرانسپورٹر دولت لہڑی اور ان کے بیٹے شعیب لہڑی سے بات کرنے کی کوشش کی تاہم یرابطہ نہ ہو سکا۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ٹرانسپورٹر کے گھر پر رات گئے چھاپہ مارا گیا تاہم کوئی گرفتاری نہ ہو سکی۔ 

شیئر: