Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جو بائیڈن انتظامیہ طالبان کی تیزترین پیش قدمی پر ’حیران‘

امریکی صدر جوبائیڈن کئی ماہ تک طالبان کے لیے بڑھتے ہوئے امکانات کو وہ کم کر کے دکھاتے رہے۔(فائل فوٹو: اے ایف پی)
امریکی صدر جوبائیڈن اور دیگر اعلیٰ امریکی حکام اتوار کو طالبان کے افغانستان پر مکمل قبضے کی رفتار دیکھ کر دنگ رہ گئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی امریکی افواج کا منصوبہ بندی کے تحت انخلا فوری طور پر ان کے محفوظ انخلا کا مشن بن گیا ہے۔
امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق افغان حکومت کے خاتمے کی رفتار اور اس کے نتیجے میں ہونی والی افراتفری نے بائیڈن کو بطور کمانڈر اِن چیف سخت امتحان سے دوچار کیا ہے اور وہ ریپبلکنز کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنے ہیں جنہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے میں ناکام ٹھہرے ہیں۔
صدر جوبائیڈن نے بین الاقوامی تعلقات کے ایک تجربہ کار ماہر کے طور پر مہم چلائی اور کئی مہینوں تک طالبان کے لیے بڑھتے ہوئے امکانات کو وہ کم کر کے دکھاتے رہے۔ انہوں نے یہ دلیل دی کہ امریکہ کے تمام سیاسی فریق اس 20 سالہ جنگ سے اکتا چکے ہیں۔
امریکی انتظامیہ کی اہم شخصیات نے یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ افغان سیکورٹی فورسز کے تیز رفتاری سے ہتھیار ڈالنے کی وجہ سے محتاط ہو گئے تھے لیکن ان کو درپیش چیلنج اس وقت واضح ہو گیا جب کابل ایئرپورٹ پر فائرنگ کی اطلاعات آئیں۔ اس کے انہوں نے ان امریکیوں کے لیے پناہ  کا انتظام کیا جوامریکی سفارت خانے کو مکمل طور پر خالی کرنے کے بعد ایئرپورٹ پر پروازوں کے منتظر تھے۔
امریکی وزیرخارجہ انتونی بلینکن نے افغان فوج کا حوالہ دیتے ہوئے سی این این کو بتایا کہ ’ہم نے دیکھا ہے کہ وہ فورس ملک کا دفاع کرنے سے قاصر ہے اور ایسا ہماری توقع سے کہیں زیادہ تیزی سے ہوا ہے۔‘

امریکی وزیرخارجہ انتونی بلینکن نے کہا کہ ’افغان فوج ملک کا دفاع کرنے سے قاصر ہے اور ایسا ہماری توقع سے کہیں زیادہ تیزی سے ہوا ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

وائٹ ہاؤس کے سینئر عہدیداروں کے مطابق بائیڈن اتوار کو کیمپ ڈیوڈ میں رہے اور انہوں نے افغانستان کے بارے میں باقاعدہ بریفنگ حاصل کی اور اپنی قومی سلامتی ٹیم کے ارکان کے ساتھ محفوظ ویڈیو کانفرنس کالز کیں۔ ان کی انتظامیہ نے فوجی، سفارتی اور انٹیلی جنس کے ماہرین کے ساتھ ایک کانفرنس روم میں موجود  اکیلے صدر کی  تصویر جاری کی۔
اگلے چند دن اس بات کا تعین کرنے میں اہم ہوں گے کہ آیا امریکہ اس صورتحال پر کچھ حد تک کنٹرول حاصل کرنے کے قابل ہے بھی یا نہیں۔
پینٹاگون اور محکمہ خارجہ نے اتوار کو ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ’ہم حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو محفوظ بنانے کے لیے کئی اقدامات کر رہے ہیں تاکہ افغانستان سے امریکی اور اس کے اتحادی اہلکاروں کی سویلین اور فوجی پروازوں کے ذریعے محفوظ طریقے سے روانگی ممکن ہو سکے۔‘
خیال رہے کہ  صدر جوبائیڈن نے امریکی شہریوں کے افغانستان سے انخلا کو محفوظ بنانے کے لیے کابل میں مزید ایک ہزار فوجی بھیجنے کا حکم دیا ہے۔

امریکہ نے کابل میں موجود اپنے شہریوں اور سفارتی عملے کے محفوظ انخلا کو یقینی بنانے کے لیے فوج کے خصوصی دستے افغانستان میں بھیجے ہیں۔(فوٹو: اے ایف پی)

دوسری جانب امریکی وزیرخارجہ  انتونی بلینکن نے سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان  کے بعد ٹوئٹ کی  کہ ’ امریکہ بین الاقوامی برادری کےاس موقف کا حامی ہے کہ افغان اور بین الاقوامی شہری جوافغانستان سے سے جانا چاہتے ہیں انہیں ایسا کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔‘
انہوں نے کہا ’جن لوگوں کے پاس اس وقت افغانستان میں طاقت اور اتھارٹی ہے ،وہ انسانی جانوں کے تحفظ کے ذمہ دار اور اس  کے لیے جواب دہ ہیں۔ ‘
امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس نے طالبان کے کابل شہر کا کنٹرول سنبھالنے کے چند گھنٹوں پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’سفارت خانے کا تمام عملہ حامد کرزئی ایئرپورٹ کے احاطے میں موجود ہے جس کے اطراف کو امریکی فوج نے اپنے حفاظت میں لیا ہوا ہے۔‘
خیال رہے کہ امریکہ نے کابل میں موجود اپنے شہریوں اور سفارتی عملے کے افغانستان سے محفوظ انخلا کو یقینی بنانے کے لیے فوج کے خصوصی دستے افغانستان میں بھیجے ہیں۔

شیئر: