Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مینار پاکستان واقعہ: پولیس نے 15 افراد کو شناخت کے بعد گرفتار کر لیا

وزیراعلی عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ ’جہاں جس نے بھی غفلت کی ہے وہاں قانون کے مطابق کارروائی ہو گی‘ (سکرین گریب)
صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں مینار پاکستان پر خاتون سے ہراسگی کے واقعہ کے بعد پولیس نے 15 افراد کو گرفتار کرنے کی تصدیق کی ہے۔
ترجمان لاہور پولیس کے مطابق ’ان افراد کی شناخت کے لیے نادرا کی مدد لی گئی۔ پولیس نے کچھ ملزمان کی شناخت بھی ظاہر کر دی ہے۔‘
 تھانہ راوی روڈ کے انچارج انویسٹیگیشن منیر حسین کے مطابق ’تین ملزمان شاہ زیب، عکاس اور خزیفہ کو گرفتار کیا گیا ہے، جبکہ ان کے چار ساتھی ہارون، وہاب، بلال اور احمد  بنوں کوہاٹ بھاگ گئے ہیں۔ پولیس ٹیم نے جمعہ کی  صبح چھاپہ مار کر 18 سالہ خزیفہ کو حراست میں لیا۔ ‘
پولیس آفیسر کے مطابق خزیفہ نے مزید ساتھیوں کا بتایا ’سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں خزیفہ اور اس کے ساتھیوں کو واضع طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ خزیفہ کوٹ عبدالمالک کا رہائشی ہے اور مدرسہ چلانے والے قاری یوسف کا بیٹا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ مزید افراد کی گرفتاری بھی جلد ہو گی۔
دوسری طرف عائشہ اکرم کی میڈیکل رپورٹ میں ان کے ’پورے جسم پر نیلگوں اور زخموں کے واضح نشانات پائے گئے ہیں، جبکہ گردن اور دائیں ہاتھ پر سوجن ہے۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’سینے کے دائیں طرف تین سکریچز ہیں۔ بائیں بازو پر کہنی کے اوپر تین سکریچز ہیں۔ کمر اور دونوں پاؤں پر بھی رگڑ کے نشانات ہیں۔‘
میڈیکل رپورٹ کے مطابق ’پورے جسم پر 13 نشانات واضع ہیں، جبکہ درجنوں نیلگوں نشانات ہیں۔‘
اس سے قبل  اس واقعے میں غفلت ثابت ہونے پر ڈی آئی جی اور ایس ایس پی آپریشنز کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے جبکہ ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کو معطل کر دیا گیا ہے۔
جمعے کو وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی زیر صدارت اعلی سطح کا اجلاس ہوا جس میں وزیراعلیٰ نے خاتون کے ساتھ پیش آنے والے واقعے پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے پولیس کے ردعمل میں تاخیر اور فرائض سے غفلت برتنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’خاتون سے دست درازی اور دیگر واقعات کے حوالے سے پولیس کا ردعمل سست رہا ہے،عوام کو پولیس سے بہت توقعات ہیں اور پولیس کو عوامی امنگوں کے مطابق فرائض سرانجام دینےہیں۔‘
وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی ہدایت پر ڈی آئی جی آپریشنز ساجد کیانی، ایس ایس پی آپریشنز سید ندیم عباس اور ایڈیشنل ایس پی آپریشنز حسن جہانگیر کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ اسی طرح متعلقہ ڈی ایس پی عثمان حیدر اور ایس ایچ او  محمد جمیل کو بھی معطل کر دیا گیا ہے۔
گریٹر اقبال پارک کے پراجیکٹ ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر کو بھی معطل کر دیا گیا ہے۔
وزیراعلی عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ ’جہاں جس نے بھی غفلت کی ہے وہاں قانون کے مطابق کارروائی ہو گی، خاتون سے دلی ہمدردی ہے، ہر صورت انصاف ہو گا۔‘
دوسری جانب  خاتون ٹک ٹاکر کو ہراساں کرنے پر 24  ملزمان کو جیو فینسنگ کے ذریعے شناخت کے بعد گرفتار کر لیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے جمعے کو اپنی ایک ٹویٹ میں بتایا ہے کہ ’وزارت انسانی حقوق مینار پاکستان پر پیش آنے والے قابل مذمت واقعے پر پنجاب پولیس کے ساتھ رابطے میں ہے۔ اب تک 24 مردوں کو جیو فینسنگ اور نادرا کے ذریعے شناخت کے بعد حراست میں لیا جا چکا ہے۔‘
اس سے قبل ایس ایس پی انویسٹی گیشن لاہور منصور امان نے اردو نیوز کے نامہ نگار رائے شاہنواز کو بتایا تھا کہ ’اب تک 70 تصاویر اور تین ویڈیوز نادرا کو بھجوائی جا چکی ہیں۔ 
’نادرا ان تصاویر کے ذریعے ملزمان تک پہنچنے کے لیے معلومات فراہم کرے گا۔ ہماری ٹیمیں گراونڈ پر بھی موجود ہیں اور ہیومن انٹیلی جنس کی مدد سے بھی ان لوگوں تتک پہنچنے کی کوشش کی جاری ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’مینار پاکستان میں اس وقت چلنے والے موبائل فونز کی جیو فینسنگ بھی کی جارہی ہے۔ جبکہ لاہور کے چار ایس پی ایس پیز کی ٹیم اس کیس کی نگرانی کر رہی ہے۔ مجھے امید ہے کہ ہم بہت جلد ملزمان تک پہنچ جائیں گے۔‘ 
یاد رہے کہ 14 اگست کو مینار پاکستان لاہور پر ایک ٹک ٹاکر عائشہ اکرم ویڈیو بنا رہی تھیں کہ اس دوران وہاں موجود افراد نے انہیں ہراسیت کا نشانہ بنایا۔
منگل کے روز شاہدرہ لاہور کی رہائشی عائشہ اکرم نے تھانہ لاری اڈہ میں درخواست دی تھی کہ ’وہ 14 اگست کو شام ساڑھے چھ بجے اپنے ساتھی کارکن عامر سہیل، کیمرہ مین صدام حسین اور دیگر چار ساتھیوں کے ہمراہ گریٹر اقبال پارک میں مینار کے قریب یوٹیوب کے لیے ویڈیو بنا رہی تھیں کہ اچانک وہاں موجود تین چار سو افراد نے ان پر حملہ کردیا۔‘

شیئر: