Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لمبی بریک کے بعد ’ورک فرام آفس‘ کیسا لگ رہا ہے؟

کورونا کی وبا نے دنیا کے نظام کو یکسر تبدیل کرتے ہوئے کئی ایک شعبوں میں ایسی ایسی تبدیلیاں رونما کر دی ہیں کہ جن کے بارے میں کچھ عرصہ پہلے تک سوچنا بھی محال تھا۔ تاہم اس وبا نے مشکلات کے ساتھ ساتھ مستقبل میں ایسے ہنگامی حالات کے دوران نظام زندگی رواں رکھنے کے کئی راستے بھی کھول دیے۔ 
ان راستوں میں ایک راستہ ورک فرام ہوم تھا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے دفاتر اور کاروباری ادارے بند ہوئے تو وہاں کام کرنے والوں کو چھٹی نہیں ملی بلکہ ’ورک فرام ہوم‘ کی اصطلاح ایجاد ہوئی اور دنیا بھر کے بیشتر اداروں کے عملے نے گھروں سے کام کرنا شروع کر دیا۔ 
پاکستان میں بھی لاک ڈاون کی وجہ سے دفاتر میں پہلے انتہائی ضروری عملے کے ساتھ، پھر پچاس فیصد عملے کی حاضری کے ساتھ سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں کام کیا جاتا رہا جبکہ نجی ادارے اپنے انتظام کے ساتھ کورونا ایس او پیز پر عمل کرتے رہے اور اکثریت نے عملے کو ورک فرام ہوم پر لگا دیا۔ 
ملازمت کے لیے ہمیشہ دفتر جانے والے خواتین و حضرات کو ابتدا میں یہ آئیڈیا بڑا اچھا لگا لیکن جلد ہی انھیں احساس ہوا کہ پیشہ وارانہ امور ایک خاص ماحول میں ہی ادا کیے جا سکتے ہیں اور گھر میں بیٹھ کر کام سب کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
خدا خدا کرکے دفاتر کھلے اور عملے نے دفتروں کا رخ کیا تو معلوم ہوا کہ ان کی عادات، اطوار، کھانا پینا اور بول چال تک سب کچھ بدل چکا ہے۔
اسی وجہ سے انھیں دوبارہ دفتروں میں ایڈجسٹ ہونے میں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے باوجود مختلف دفاتر میں کام کرنے والے افراد کی بڑی تعداد ’ورک فرام ہوم‘ کے بجائے دفاتر میں حاضر ہو کر کام کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ 
محمد طیب ایک سرکاری ادارے میں گریڈ 18 کے افسر ہیں۔ انھیں بھی لاک ڈاؤن کے دوران کچھ عرصے کے لیے گھر سے کام کرنا پڑا۔

ورک فرام ہوم کے دوران خواتین کو ڈبل ڈیوٹی دینا پڑ گئی۔ فوٹو: ان سپلیش

گھر پر کام کے دوران جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہ تو سبھی جانتے ہیں لیکن دفتری معمول پر واپس آتے ہوئے بھی انھیں کافی کوفت کا سامنا رہا۔ 
اردو نیوز سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ ’عموماً جب دفتر آتے تھے تو ایک خود کار معمول بن جاتا کہ کس وقت جاگنا ہے، نہانے دھونے، تیاری اور ناشتے میں کتنا وقت لگنا ہے اور گھر سے دفتر کا فاصلہ کتنے منٹوں میں طے ہونا ہے۔ لیکن ورک فرام ہوم کے بعد دفتر واپس جوائن کرنے پر اس شیڈول کو اپنانے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ورک فرام ہوم میں صبح کی میٹینگ سے چند منٹ پہلے ہاتھ منہ دھو کر آن لائن میٹنگ میں شامل ہو جاتے تھے۔ ساتھ ساتھ ناشتہ بھی کر لیتے تھے اور میٹنگ سے فری ہوکر اکثر ادھر ہی بیٹھے بیٹھے کام کرتے اور دوپہر کے کھانے کا وقت ہو جاتا۔ دفتر آنے کا معمول بھول چکے تھے۔ مجھے تو یہ بھی یاد نہیں رہا تھا کہ میں گھر سے دفتر پہنچنے میں کتنا وقت لگاتا تھا۔ اپنے پرانے شیڈول پر واپس آتے ہوئے مجھے ہفتہ دس دن لگے۔‘ 
محمد طیب  نے کہا کہ ’دفتر میں انسان ایک خاص ماحول کے ساتھ کام کرتا ہے لیکن گھر کا ماحول خاص طور پر بچوں والے گھر کا ماحول قدرے آزادانہ ہوتا ہے ایسے میں مسلسل گھر پر رہ کر بچوں سے ڈیل کرنے کے دوران انسان کی آواز قدرتی طور پر بلند ہو جاتی ہے۔ لاک ڈاؤن کے بعد ابتدا کے کچھ روز جب بات کرتا تو دفتری ساتھی میری خلاف معمول بلند آواز سے چونک جاتے تھے۔ حالانکہ ان کی اپنی حالت بھی میرے جیسی ہی تھی۔‘ 

دفاتر کھلنے کے باوجود ملازمین کو فاصلے سے بیٹھنے کی ہدایت دی جاتی ہیں۔ فوٹو: پکسا بے

محمد ارسلان اشرف ایک ادارے میں پروگرام آفیسر ہیں۔ ان کو شروع میں ورک فرام ہوم چھٹیاں محسوس ہوتی تھیں اور انھوں نے اس میں نیند پوری کرنے کا کام کیا۔ لیکن جب سے دفتر بحال ہوا ہے ان کی نیندیں اڑی ہوئی ہیں۔ 
اردو نیوز سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ’بڑی مشکل سے ورک فرام ہوم کے عادی ہوئے تھے کہ دفتر کھل گئے اور معلوم ہوا کہ دفتر آنے کی عادت ہی بھول چکی ہے۔ باقی سب تو آہستہ آہستہ معمول پر آ جائے گا لیکن دفتر معمول پر آنے سے نیند پوری کرنے کا موقع شاید دوبارہ ہاتھ نہیں آئے گا۔‘ 
لیکن لوگوں کی بہت بڑی تعداد دفاتر میں واپسی کو  بہتر سمجھتی ہے اور اس کے لیے بے تاب تھی۔ 
پیشے کے لحاظ سے محقق جنید زاہد کہتے ہیں کہ وہ ’ورک فرام ہوم‘ کے دوران زیادہ تر وقت گھر والوں کی فرمائشیں پوری کر کے گزارتے تھے۔  
کئی پروفیشنل لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ گھر سے تخلیقی کام کرنے کی گنجائش کم ہوتی ہے۔ پبلک پالیسی کے شعبے میں ماسٹر ٹرینر سعدیہ ستی بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ 
وہ کہتی ہیں ’لاک ڈاؤن میں ورک فرام ہوم چند دن ہی اچھا لگا لیکن چند دن کے بعد ہی وہ مشکل ہوگیا جس سے ہمیں سٹریس کا سامنا کرنا پڑا۔ دفتر میں کام کرنے سے دفتری وقت کا بہتر استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘

شیئر: